سپریم کورٹ آف پاکستان میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا جس کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔
جسٹس منصور علی شاہ بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ شریعت اپیلٹ بینچ کے ارکان جسٹس قبلہ ایاز اور جسٹس خالد مسعود نے بھی فل کورٹ ریفرنس میں شرکت کی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ( Chief Justice Qazi Faez isa) نے فل کورٹ ریفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ضرور ہوتا ہے، جو اس کے طویل تجربے کا حصہ بن جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں یہ بات مانی جاتی ہے کہ کسی بھی جج کے پاس کیس لگنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ فیصلہ کس طرف جا سکتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ فیصلے شفاف نہیں ہوتے۔
سپریم کورٹ کے نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کا پہلا اقدام فل کورٹ اجلاس بلانا تھا، جو پچھلے چار سال سے نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے لائیو ٹرانسمیشن کے ذریعے عوام کو براہ راست عدالتی کارروائی دکھانے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اب فیصلے زیادہ شفافیت سے کیے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب کو نئے عدالتی سال کی مبارک ہو، 9 دن بعد مجھے بطور چیف جسٹس ایک سال ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کاز لسٹ میں تبدیلی کا اختیار پہلے چیف جسٹس کے پاس تھا، جو اب رجسٹرار کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے ملازمین کی واپسی اور ان کی جگہ نئے ملازمین کی ترقی اور تقرری کا بھی ذکر کیا، جس سے سپریم کورٹ کے 146 ملازمین کی ترقی اور 78 نئی تعیناتیاں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ نئے عدالتی سال کے موقع پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارروائی کیسی رہی، میرا سب سے پہلا کام فل کورٹ اجلاس بلانا تھا جو 4 سال سے نہیں ہوا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز ( Chief Justice Qazi Faez isa) کا کہنا ہے کہ لائیو ٹرانسمیشن کا مقصد عوام تک براہِ راست اپنی کارکردگی دکھانا تھا، پہلے عوام کو وہی معلوم ہوتا تھا جو ٹی وی چینلز دکھاتے تھے یا یوٹیوبر بتاتے تھے، عوامی اہمیت کے حامل مقدمات کو براہِ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ یقیناً ہر ادارے میں بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے، دیکھا جائے کیا پہلے سے بہتری اور شفافیت آئی ہے یا نہیں، پہلے تو بینچ بنتے ہی علم ہو جاتا تھا کہ فیصلہ کیا ہوگا، اب مجھے خود پتہ نہیں ہوتا کہ دائیں بائیں بیٹھے ججز کیا فیصلہ کریں گے، کیا اب کیس لگنے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا؟ اگر نہیں پتہ چلتا فیصلہ کیا ہوگا اس کا مطلب ہے شفافیت آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے چیف جسٹس جمعرات کو کاز لسٹ کی منظوری دیتے تھے، پہلے کاز لسٹ میں تبدیلی کا اختیار چیف جسٹس کے پاس تھا، اب چیف جسٹس کا کاز لسٹ میں تبدیلی کا اختیار ختم کر دیا گیا، اب کاز لسٹ چیف جسٹس کے پاس نہیں آتی، مقدمات کی سماعت مقرر کرنے کا اختیار رجسٹرار کا ہے، سپریم کورٹ میں ملازمین ہمارے نہیں ہوتے لیکن سپریم کورٹ کے لیے کام کرتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ملازمین کو جیسے بونس ملتا ہے ویسے ہی سپریم کورٹ سے وابستہ ملازمین کو بھی بونس دیا گیا، سب لوگوں کے بنیادی حقوق برابر ہیں، سپریم کورٹ کو آفیشل خط لکھیں، ہم جواب دیں گے، ذرائع کی ضرورت نہیں، مفروضوں پر نہ چلیں، سپریم کورٹ نے انتخابات کا اہم فیصلہ کیا 3 سماعتیں ہوئیں اور 12 روز کے اندر انتخابات پر فیصلہ کیا، سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور صدرِ مملکت دونوں کہہ رہے تھے کہ انتخابات کی تاریخ ان کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ نے کہا صدرِ مملکت کے پاس جا کر انتخابات کی تاریخ لائیں، سپریم کورٹ نے کہا انتخابات کی تاریخ میں ردوبدل نہیں آئے گا، رکاوٹیں پیدا کرنے والے رکاوٹیں لے آتے ہیں.
گزشتہ سال اہم ترین فیصلوں میں انتخابات کا انعقاد بھی شامل تھا، اپنی ذات تک کبھی توہین عدالت کا نوٹس نہیں لیا، ایک بار توہین عدالت کا کیس کیا جس پر معافی مانگ لی گئی.
سپریم کورٹ کا کام تشریح کرنا ہے، پارلیمنٹ قانون بناتی ہے، دوسروں سے شفافیت اور احتساب کریں اور اپنا نہ کریں تو قدر نہیں کی جاتی، سپریم کورٹ کے جج پر الزام لگایا، انہیں برطرف کیا گیا، کھلی عدالت میں کیس چلایا گیا، ہمیشہ دعاگو رہتا ہوں غلطیاں نہ ہوں، سپریم کورٹ نے بھی غلطیاں کی ہیں، اسلام آباد کے جج کوغلط برطرف کیا گیا، بحال تو نہیں کر سکے لیکن انہیں ریٹائرڈ جج کا درجہ دیا گیا، آئین شکن کا مقدمہ پرویز مشرف پر چلایا گیا، سپریم کورٹ کے سامنے بیریئرز رکھے گئے تھے، ہم نے ہٹا دیے۔
چیف جسٹس کے گھر میں مور رکھے گئے تھے، چیف جسٹس کے ساتھ موروں کا کیا تعلق، ان کے گھر سے موروں کو ہٹایا گیا اور کلرکہار ٹرانسفر کیا گیا.
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس سپریم کورٹ میں چلا جس میں سزائے موت برقرار رکھی گئی، ان کا کیس صدارتی ریفرنس کے ذریعے دوبارہ سنا گیا، سپریم کورٹ نےفیصلہ دیا ان کا کیس فیئر ٹرائل نہیں تھا.
چیف جسٹس کو 3 ہزار سی سی لگژری گاڑی کی ضرورت نہیں تھی، لاہور رجسٹری میں کھڑی بلٹ پروف گاڑی بھی حکومت کو واپس بھیجی گئی، حکومت کو کہا ان گاڑیوں کو بیچ کر عوام کے لیے بسیں خریدے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نظام انصاف کی بہتری میں عام سائلین کی ضروریات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے اور تاخیر سے سائلین کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ انہوں نے فوجداری مقدمات میں تاخیر کو سائلین کے لیے شدید نقصان دہ قرار دیا۔
انہوں نے سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق جسٹس جمال مندوخیل کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے فیصلے میں قیدیوں کے حالات کی بہترین عکاسی کی۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے بھی فل کورٹ ریفرنس میں خطاب کیا اور سوموٹو اختیارات کے استعمال کے طریقۂ کار وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
قابل ترین ججز کو عدلیہ میں لانے کا پراسیس اپنانا ہو گا، میرٹ کی بنیاد پر ججوں کی بھرتی کیلئے سخت طریقہ کار اپنانا ہو گا.منیر بھٹی کیس کے فیصلے نے پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات محدود کیے، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان سمجھتے ہیں یہ فیصلہ ان کے اختیارات پر’انکروچمنٹ‘ ہے، منیر بھٹی فیصلے پر سپریم کورٹ کو نظرثانی کی ضرورت ہے۔