آئیں بجلی بچائیں ۔ کچھ قابل ِ عمل تجاویز

ڈاکٹر فرخ شہزاد

بجلی کے بحران نے ملک کے عوام کو ہلکان کر دیا ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ بحران بڑھ رہا ہے اور بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا جار ہا ہے۔ مہنگی بجلی کی ایک بڑی وجہ کُنڈا سسٹم ہے۔ بے شمار علاقے ہیں جہاں بجلی کی مین تاروں سے براہ راست بجلی حاصل کی جا رہی ہے اور جب ان تاروں کو کاٹنے کے لیے آپریش شروع کیا جائے تو جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ حکام ہار مان کر دوبارہ اپنے دفاتر کو لوٹ جاتے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاستیں موجود ہیں جہاں بجلی کے معاملے میں ریاست بے بس ہے۔ ان ریاستوں کے علاوہ گلی محلوں میں سینہ زوری ہو رہی ہے اور مجموعی طور پر ملک کو کھربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس نقصان کو ختم کرنے کے لیے صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں دھڑا دھڑ اضافہ کیا جا رہا ہے۔
یہ سب کچھ تو اسی طرح جاری رہے گا۔ اس لیے اس بارے کوئی تجویز دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہاں ہم بجلی کی بچت بارے ایسی تجاویز دے رہے ہیں جو قابل عمل ہیں اور ان پر عمل کرکے بجلی کی کھپت بھی کم ہو سکتی ہے اور بجلی کے بل بھی بہت کم ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے بازاروں کا رُخ کرتے ہیں۔ ہر بڑی دُکان پر سینکڑوں واٹ پاور والے سینکڑوں بلبل استعمال ہو رہے ہیں۔ ایسی دُکانوں پر کم پاور کے پانچ یا دس بلبوں سے زیادہ کی ضرورت نہیں۔اگر فالتو بلب بند کر دئیے جائیں تو پورے ملک میں بند ہونے والے بلبوں کی تعداد کروڑوں بلکہ اربوں تک پہنچ جائے گی۔ اندازہ لگائیں صرف اس طریقے سے سینکڑوں میگا واٹ بجلی کی بچت ہو جائے گی۔ پوری قوم کو آنکھیں چوندھیا دینے والی روشنی کی عادت پڑچکی ہے اس عادت کو ختم کرنا ہو گا۔ چھوٹی دُکانوں پر بھی دو یا تین سے زیادہ بلب چلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بجلی کی بچت کے علاوہ اس طریقے سے بجلی کے بل بھی بہت کم ہو جائیں گے۔ اسی طرح گھروں کے اندر اور باہر کم بلب روشن کئے جائیں۔ دیکھا گیا ہے کہ گھروں اور دُکانوں پر کسی کی غیر موجودگی میں بھی بلب اور پنکھے چلتے رہتے ہیں۔ ایک فرد کی یہ ڈیوٹی لگا دینی چاہیے کہ وہ انہیں بند کرتا رہے۔ بجلی کے بچت کے لیے رات کے وقت فریج یا فریزر کو بند کر دیا جائے، Peakآورز میں، زیادہ بجلی کھینچنے والے آلات (جیسے پانی کی موٹر)استعمال نہ کیے جائیں۔ اسی طرح عام پنکھوں کو کم بجلی کھینچنے والے پنکھو ں سے تبدیل کرلیا جائے تو بھی بجلی کے بل کم ہو سکتے ہیں۔ دن کے اوقات میں پردے ہٹا کر روشنی کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔
اب ایئر کنڈیشنڈ کا ذکر کرتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ اے سی چلانے کا موسم شروع ہونے سے بہت پہلے اے سی چلائے جاتے ہیں اور جب یہ موسم ختم ہو جاتا ہے تب بھی انہیں چلانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ گھر کے تمام کمروں کے اے چلانے کی بجائے ایک یا دو کمروں کے اے سی چلا کر گزار ہ کیا جا سکتا ہے جبکہ دن کے وقت تو صرف کامن روم کا اے سی چلا کر کام چلایا جا سکتا ہے۔ صرف اسی طریقے سے یہ گھر میں ماہانہ ہزاروں روپے کی بچت کی جا سکتی ہے۔ کئی کئی گھنٹے تک مسلسل انتہائی کم درجہ حرارت پر اے سی چلانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی لیکن کوئی اس طرف توجہ نہیں دیتا۔ دُکانوں اور دفاتر میں بھی اے سی بارے یہی رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ شادی ہالز اوربڑے شاپنگ مالز بارے بھی یہی پالیسی اپنائی جانی چاہیے۔
اے سی کے استعمال بارے ایک آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ جس کے موسم کے دوران کئی بار ایسا موسم آتا ہے خاص طور پر رات کے وقت جب اے سی کی جگہ پیڈسٹل پنکھا استعمال کر لیا جائے تو گزارہ ہو جاتا ہے۔ اس پنکھے کی ہوا بہت تیز ہوتی ہے اور اسے قریب رکھ کر چلایا جائے تو ایسے موسم میں اے سی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
اب ہم قبرستانوں کا رُخ کرتے ہیں۔ پاکستان کے ہر قبرستان میں درجنوں کی تعداد میں مزارات موجود ہیں۔ اس طرح پورے ملک میں ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔ ان مزارات میں چوبیس گھنٹے انتہائی تیز پاور کے بلب روشن رہتے ہیں۔ ہمیں یہ علم نہیں کہ مزارات پر بجلی کے میٹر لگے ہوئے ہیں یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر مزار پر چلنے والے قمقموں کی تعداد اور پاور کم کر دی جائے توبجلی کی بہت زیادہ بچت کی جا سکتی ہے۔ مزارات پر ہونے والے عرس اور میلوں ٹھیلوں میں پانی کی طرح بجلی ضائع کی جاتی ہے جس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ مختلف تہواروں کے ایام میں چراغاں کرکے روشنی ضائع کرنے کا رجحان ختم ہونا چاہیے۔ دیکھا گیا ہے کہ اسٹریٹ لائٹس صبح روشنی کے بعد بھی چلتی رہتی ہے۔ اس طرف بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مندرجہ بالا تجاویز پر مخلصانہ کوشش کی جائے تو ہم بجلی کی قیمت کھپت اور بچت کے مسئلے کو کافی حد تک حل کر سکتے ہیں۔
کچھ ذکر کا لا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم کا 90کی دھائی جب کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا گیا تو اس کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا گیا اور اسے بم سے ڈرانے کی دھمکی دی گئی۔ اس وقت ڈیم بن جاتا تو آج ہمیں بجلی کا اتنا رونا نہ رونا پڑتا۔ کالا باغ کے متبادل کے طور پر بھاشا ڈیم بنانے کا اعلان کیا گیا جسے 2016ء میں مکمل کرنا تھا لیکن یہ بھی نہ بن سکا۔ اے اللہ اس ملک کو صحیح راستے پر چلنے کے اسباب پیدا کر دے (آمین)۔
مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔