زینبؑ بنت علی: شجاعت کی پیکر اور جبر کے خلاف ناقابل تسخیر صدا

تحریر : حمیرا عنبرین

تاریخ کے پنہاں گوشوں میں جب کبھی بھی جرات و استقامت کی داستانیں رقم کی جاتی ہیں، حضرت زینب بنت علیؑ (Hazrat Zainab bint Ali) کا نام ہمیشہ ایک درخشاں ستارے کی مانند چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ حضرت زینبؑ، حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ زہراؑ کی بیٹی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی ہیں، جنہوں نے کربلا کے معرکے میں جو بے مثال جرات اور حوصلے کا مظاہرہ کیا، وہ اسلامی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ ان کا کردار، ان کی بے باک خطابت، اور ان کا استقامت آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں حریت اور عدل کے لیے ایک مضبوط تحریک کا باعث ہے۔

“بیشک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدل ڈالے۔”
(قرآن 13:11)

حضرت زینبؑ بنت علی کی حیات اور کربلا کے بعد ان کی جرات مندانہ خطابت، اسلامی تاریخ میں مزاحمت، شہادت، اور عدل کے لیے جدوجہد کے تصورات کو گہرائی سے متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے ظلم و جبر کے خلاف اپنی بے خوف آواز بلند کی، جو آج بھی مسلمانوں کو ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی تحریک دیتی ہے۔

کربلا: حق و باطل کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ
کربلا کا معرکہ اسلامی تاریخ میں وہ سنگ میل ہے جہاں حق و باطل کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ ہوا۔ یہ معرکہ 10 محرم 61 ہجری بمطابق 680 عیسوی میں وقوع پذیر ہوا، جب امام حسینؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے ظلم و جبر کے خلاف اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ کربلا کا میدان، جہاں ایک طرف ظاہری طاقت کا غرور تھا، وہیں دوسری طرف حق و عدل کی پاسداری تھی۔ امام حسینؑ کا یہ انکار، دراصل دین اسلام کے بنیادی اصولوں کی حفاظت کے لیے تھا، جو عدل، انصاف، اور مظلوموں کے حق میں تھا۔

حضرت زینبؑ، جو امام حسینؑ کی بہن تھیں، اس معرکے کی عینی شاہد تھیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنے بھائی اور خاندان کے دیگر افراد کی شہادت کا مشاہدہ کیا بلکہ اس سانحے کے بعد بھی اپنے حوصلے کو برقرار رکھا اور ظلم کے خلاف اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ حضرت زینبؑ نے کربلا کے میدان میں جو عظیم صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا ہے۔ ان کا کردار اور ان کی جرات آج بھی ایک مشعل راہ ہے، جو ہمیں بتاتی ہے کہ حق و باطل کے معرکے میں جرات اور استقامت ہی فتح کی کنجی ہیں۔

“اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنی راہیں دکھاتے ہیں، اور بیشک اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔”
(قرآن 29:69)

یزید کے دربار میں زینبؑ کی جرات مندانہ خطابت
کربلا کے معرکے کے بعد، حضرت زینبؑ اور خاندانِ نبوی کے دیگر افراد کو قیدی بنا کر یزید کے دربار میں پیش کیا گیا۔ یہاں حضرت زینبؑ کی جرات و استقامت کا ایک نیا باب رقم ہوا۔ یزید، جو اپنی طاقت کے نشے میں مست تھا، حضرت زینبؑ کی بے خوفی اور ان کی حق گوئی کے سامنے بے بس نظر آیا۔

یزید کے دربار میں حضرت زینبؑ نے جو خطاب کیا، وہ دراصل ظلم کے خلاف ایک اعلان جنگ تھا۔ انہوں نے اپنے بے باک خطاب کے ذریعے یزید کے ظلم و ستم کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اس کی حکومت کی اخلاقی پستی کو بے نقاب کیا۔ حضرت زینبؑ نے اپنے خطاب میں فرمایا:
“اے یزید! اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے کہ گناہوں کا ارتکاب اور اللہ کی نشانیوں کو جھٹلانا ان کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔”

حضرت زینبؑ نے یزید کے اقتدار کو عارضی اور فانی قرار دیتے ہوئے اس کے انجام کی خبر دی۔ انہوں نے کہا کہ یزید کا ظلم و جبر خدائی انصاف سے بچ نہیں سکتا، اور اس کا اقتدار محض ایک عارضی مہلت ہے۔ حضرت زینبؑ کا یہ خطاب نہ صرف یزید کے دربار میں موجود لوگوں کے دلوں میں حق کی شمع روشن کر گیا بلکہ اس نے آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک پیغام چھوڑا کہ ظلم کے سامنے سر جھکانا جائز نہیں۔

حضرت زینبؑ کا یہ خطاب دراصل ایک تاریخی دستاویز ہے، جس میں ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہونے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ان کے الفاظ نے نہ صرف یزید کے دربار میں موجود لوگوں کو جھنجھوڑا بلکہ اس کے بعد آنے والے تمام ادوار میں حق و انصاف کے علمبرداروں کے لیے ایک مشعل راہ ثابت ہوا۔ حضرت زینبؑ کی خطابت ایک ایسی طاقتور صدا تھی جو ہر ظلم و جبر کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کا پیش خیمہ بنی۔

حضرت زینبؑ: مزاحمت کی علامت اور اسلامی معاشرت میں خواتین کا کردار
حضرت زینبؑ کی جرات و استقامت نہ صرف ان کے وقت کے لوگوں کے لیے بلکہ آنے والی تمام نسلوں کے لیے ایک مثال ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ ظالم کے سامنے جھکنا اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ حضرت زینبؑ نے یہ پیغام دیا کہ مزاحمت اور حق کے لیے کھڑا ہونا ہر مسلمان کا فرض ہے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔

حضرت زینبؑ کا کردار اسلامی تاریخ میں خواتین کے لیے ایک مثالی کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ خواتین بھی جرات و استقامت کی علامت بن سکتی ہیں اور عدل و انصاف کے لیے کھڑی ہو سکتی ہیں۔ ان کی شخصیت نے اسلامی معاشرت میں خواتین کے روایتی کردار کو چیلنج کیا اور یہ دکھایا کہ عورتیں بھی اسلامی تحریک میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

حضرت زینبؑ (Hazrat Zainab bint Ali) کی شجاعت نے اسلامی معاشرت میں خواتین کے لیے ایک نیا معیار قائم کیا۔ ان کی بے خوفی اور ان کے عزم نے یہ ثابت کیا کہ خواتین بھی ظلم و جبر کے خلاف کھڑی ہو سکتی ہیں اور عدل و انصاف کی علمبردار بن سکتی ہیں۔ حضرت زینبؑ نے اسلامی دنیا میں نسوانیت کی ایک نئی تعبیر پیش کی، جس میں عورتوں کے کردار کو محض گھریلو ذمہ داریوں تک محدود نہ کیا گیا بلکہ انہیں معاشرتی اور دینی تحریکات میں اہم کردار ادا کرنے کی ترغیب دی گئی۔

“اسلام نے عورتوں کو عزت اور وقار کا مقام عطا کیا ہے۔”
(حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

حضرت زینبؑ کی قیادت اور خطابت نے خواتین کو معاشرتی انصاف کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے حوصلہ دیا۔ ان کی وراثت نے اسلامی معاشرت میں صنفی کرداروں کی روایتی تشریحات کو چیلنج کیا اور خواتین کی قیادت اور سرگرمی کی ایک طاقتور مثال پیش کی۔

حضرت زینبؑ کی جدوجہد اور مزاحمت کے اثرات کو دیکھتے ہوئے، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا یہ قول یاد آتا ہے: “ظلم کہیں بھی ہو، وہ ہر جگہ انصاف کے لیے خطرہ ہے۔” حضرت زینبؑ کی مزاحمت کا پیغام نہ صرف اسلامی معاشرت تک محدود نہیں بلکہ اس کا اثر دور حاضر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جہاں دنیا بھر میں انصاف اور حق کے لیے جدوجہد کی جا رہی ہے۔

حضرت زینبؑ کی وراثت: آج کے دور میں حریت کا پیغام
حضرت زینب بنت علیؑ (Hazrat Zainab bint Ali) کا کردار اور ان کی وراثت آج بھی امت مسلمہ کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ ان کی جرات، ان کی استقامت، اور ان کا عدل کے لیے کھڑے ہونے کا عزم، آج بھی مختلف مزاحمتی تحریکات کا حصہ ہے۔ 1979ء کے ایرانی انقلاب میں، امام حسینؑ اور حضرت زینبؑ کی یاد کو ایک تحریک کے طور پر استعمال کیا گیا جس نے ظالم شاہی حکومت کو گرا دیا۔

اسی طرح، لبنان کی حزب اللہ تحریک اور عراق کی شیعہ ملیشیاؤں نے بھی حضرت زینبؑ کی شخصیت اور کربلا کے واقعے سے ترغیب حاصل کی ہے۔ یہ تمام تحریکات اس بات کی علامت ہیں کہ حضرت زینبؑ کی شجاعت اور ان کے الفاظ آج بھی زندہ ہیں اور لوگوں کو ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

حضرت زینبؑ کا کردار اسلامی دنیا میں نسوانیت کی ایک طاقتور مثال کے طور پر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ خواتین بھی اسلامی معاشرت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اور عدل و انصاف کے لیے کھڑے ہونے میں مردوں کے برابر ہیں۔ حضرت زینبؑ کا کردار اسلامی نسوانیت کی تحریک میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اور ان کی جرات و استقامت آج بھی اسلامی معاشرت میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں اہمیت رکھتی ہے۔

حضرت زینبؑ کی وراثت ایک ایسا پیغام ہے جو آج بھی زندہ ہے۔ ان کی جرات و استقامت، ان کی بے خوفی اور ان کے عزم نے اسلامی تاریخ میں ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ ان کی شخصیت نے ہمیں یہ سکھایا کہ حق کے لیے کھڑے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو کسی بڑے لشکر کی ضرورت ہے، بلکہ اگر آپ کے دل میں حق اور انصاف کا جذبہ ہے، تو آپ اکیلے بھی ایک پوری تاریخ کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

حضرت زینبؑ (Hazrat Zainab bint Ali) کی شخصیت اور ان کی بے مثال قربانی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور حق کی حمایت کرنے کا عمل کبھی بھی ضائع نہیں جاتا۔ ان کی زندگی ایک ایسے پیغام کا مظہر ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حق اور انصاف کے لیے جرات اور استقامت کے ساتھ کھڑا رہنا، انسانی تاریخ کا وہ ابدی اصول ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔

یہ وہی اصول ہے جو سن زو کی حکمت عملی کے ایک مشہور قول میں بھی جھلکتا ہے: “انتشار کے بیچ میں، مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔” حضرت زینبؑ نے کربلا کے معرکے میں اور اس کے بعد جو حالات دیکھے، ان میں اپنے موقف اور ایمان کو مضبوط رکھتے ہوئے، اپنے دشمن کے سامنے حق و صداقت کا پیغام پیش کیا، جو تاریخ کے صفحات پر نقش ہو گیا۔

خلاصہ
حضرت زینب بنت علیؑ کی زندگی، ان کی شجاعت، اور ان کا جرات مندانہ موقف آج بھی اسلامی فکر میں ایک مستقل مقام رکھتا ہے۔ وہ شجاعت کی پیکر اور جبر کے خلاف ایک ناقابل تسخیر صدا تھیں جنہوں نے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا پیغام دیا۔ ان کی وراثت، عدل و انصاف کے لیے تحریک دیتی ہے اور ہر اس شخص کے لیے ایک مثال ہے جو حق کی علمبرداری اور ظلم کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔

حضرت زینبؑ کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حق کے لیے کھڑے ہونا، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں، ہمیشہ کامیابی کا راستہ ہے۔ ان کی وراثت ہمارے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت، عدل و انصاف کے اصولوں پر کھڑا رہنا، اور حق کے لیے آواز بلند کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ حضرت زینبؑ کا یہ پیغام آج بھی ہمارے دلوں میں گونجتا ہے، اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایمان، صبر، اور جرات کے ساتھ جینا ہی حقیقی کامیابی ہے۔

حضرت زینب بنت علیؑ (Hazrat Zainab bint Ali) کا کردار اسلامی تاریخ میں ہمیشہ ایک درخشاں مثال رہے گا، اور ان کی زندگی، ان کی شجاعت، اور ان کا جرات مندانہ موقف آنے والی نسلوں کے لیے حریت و استقامت کا ایک نیا باب کھولتا رہے گا۔ ان کا پیغام، جو ظلم کے خلاف مزاحمت اور حق کے لیے کھڑے ہونے کا ہے، ہر دور میں مسلمانوں کے لیے ایک راہنما روشنی کا کردار ادا کرتا رہے گا۔

حضرت زینبؑ کی شخصیت اور ان کی بے مثال قربانی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور حق کی حمایت کرنے کا عمل کبھی بھی ضائع نہیں جاتا۔ ان کی زندگی ایک ایسے پیغام کا مظہر ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حق اور انصاف کے لیے جرات اور استقامت کے ساتھ کھڑا رہنا، انسانی تاریخ کا وہ ابدی اصول ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔ حضرت زینب بنت علیؑ کی وراثت آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی، کیونکہ وہ سچائی کی ایک ناقابل تسخیر علامت ہیں، جو ظلم کے خلاف مزاحمت اور حریت کے لیے کھڑے ہونے کا پیغام دیتی ہیں۔

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔