جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اداروں کے اعلیٰ عہدیدار اپنی ایکسٹینشن (Extension) کی فکر میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ جرنیل ہمارے احترام میں ہیں، لیکن اگر میرے ایوان سے لوگوں کو اٹھانے کی کوشش کی گئی، تو میں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ میں پیش آنے والے حالیہ واقعے کی شدید مذمت کی اور تجویز دی کہ پارلیمنٹ کو احتجاجاً تین دن کے لیے بند کردیا جانا چاہیے تھا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پارلیمنٹ کو عوام کے مسائل پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے گفتگو کی اور کہا کہ کئی علاقوں میں پولیس سورج غروب ہونے کے بعد منظر سے غائب ہو جاتی ہے، جس سے قانون کی عملداری کمزور ہو جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لکی مروت سے شروع ہونے والا دھرنا بنوں اور باجوڑ تک پھیل چکا ہے۔ اگر پولیس اپنے فرائض ادا نہیں کرے گی تو حالات کیسے بہتر ہوں گے؟ ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ادارے اور ان کے سربراہان اپنی ایکسٹینشن کی فکر میں ہیں، جب کہ نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ فوج اور عدلیہ میں ایکسٹینشن (Extension) کا عمل غلط ہے، اس کو تبدیل کرنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پارلیمنٹ کو بااختیار بنانا ہوگا اور یہاں ہر موضوع پر آزادانہ بات کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ فوج اور عدلیہ پر تنقید کے حوالے سے اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ آئین میں فوج اور عدلیہ پر تنقید کی اجازت نہیں، جس پر مولانا فضل الرحمان نے جواب دیا کہ اصلاح کی بات ضرور کی جا سکتی ہے، اور فوج و عدلیہ کو اپنی حدود کا خیال رکھنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جرنیل ہمارے احترام میں ہیں، لیکن ایوان سے لوگوں کو اٹھانے کی کوشش کی گئی تو یہ ناقابل قبول ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اصلاحات کی ضرورت ہے اور چیف جسٹس کی تقرری جوڈیشل کونسل اور پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہونی چاہیے۔
انہوں نے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اصلاحات کے حوالے سے تجاویز کو ایوان سے مل کر متفقہ طور پر آگے بڑھانا چاہیے۔