بلوچستان دہشتگردوں کے بزدلانہ حملے، موسیٰ خیل، قلات، اور بولان میں 37 افراد جاں بحق.

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے دہشتگردی کے حملوں نے صوبے کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جہاں تین الگ الگ واقعات میں مجموعی طور پر 37 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ یہ واقعات صوبے میں امن و امان کی صورت حال پر سنگین سوالات اٹھا رہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق، پہلا واقعہ ضلع موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم میں پیش آیا، جہاں دہشتگردوں نے بین الصوبائی شاہراہ پر ناکہ لگا کر مسافروں کی شناخت کے بعد انہیں گاڑیوں سے اتار کر قتل کر دیا۔ اس حملے میں 23 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں، جن میں مسافر، بسوں کے ڈرائیور اور ٹرک ڈرائیور بھی شامل تھے۔ دہشتگردوں نے اپنی بزدلانہ کارروائی کے بعد کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی، جس سے علاقے میں افراتفری مچ گئی۔

ضلع قلات میں دہشتگردی کا ایک اور دلخراش واقعہ پیش آیا، جہاں مسلح افراد نے لیویز کے چار اہلکاروں، ایک پولیس سب انسپکٹر، اور پانچ دیگر افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ حملہ سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے سلسلے کی ایک کڑی تھا، جو صوبے میں سیکیورٹی فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

تیسرا واقعہ ضلع بولان کے علاقے کول پور میں پیش آیا، جہاں سے چار افراد کی لاشیں ملی ہیں، جو بظاہر دہشتگردی کا شکار ہوئے تھے۔ مزید برآں، مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں لیویز تھانے پر حملہ کیا گیا، جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے فوری ردعمل دیتے ہوئے تھانے کا قبضہ واپس حاصل کیا۔ بولان کے علاقے دوزان میں ریلوے پل کو بارودی مواد سے تباہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں کوئٹہ کی سندھ اور پنجاب سے ریلوے ٹریفک مکمل طور پر معطل ہو گئی۔

ایس پی موسیٰ خیل، ایوب اچکزئی کے مطابق، مسلح افراد نے ڈیرہ غازی روڈ کنگری کے قریب 2 کلومیٹر کے فاصلے پر دہشتگردی کی اس واردات کو انجام دیا، جہاں انہوں نے مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر ان کی شناخت کی اور پھر ان پر فائرنگ کی۔ حملے کے بعد، دہشتگردوں نے تقریباً 10 گاڑیوں کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔

ان واقعات کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ان دہشتگرد حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے جاں بحق ہونے والے 23 افراد کے اہل خانہ سے اظہارِ تعزیت کیا اور کہا کہ حکومت دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے گی تاکہ صوبے میں امن و امان کی بحالی ممکن ہو سکے۔

یہ حملے بلوچستان میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو واضح کرتے ہیں، اور اس بات کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں کہ حکومت اور سیکیورٹی ادارے مزید موثر اقدامات اٹھائیں تاکہ عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔