کیا نیشنل پارک کی دیکھ بھال وزارت داخلہ کا کام ہے؟ جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے،چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک (Margalla National Park) میں کمرشل سرگرمیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے یہاں ریسٹورنٹ ہٹانے کا سوچا تھا، مگر ہاؤسنگ سوسائٹیاں نکل آئیں۔ کیا نیشنل پارک کی دیکھ بھال وزارت داخلہ کا کام ہے؟ پولیس اور دیگر ادارے تو دہشت گردی پر قابو پا چکے ہیں، اب کیا پارک کی دیکھ بھال بھی انہیں ہی کرنی ہے؟ جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے، اٹارنی جنرل کو بھی حالات کا علم نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک (Margalla National Park) کے قومی اثاثے کے تحفظ کے لئے حکم دیا تھا، عدالتی حکم کے بعد وائلڈ لائف بورڈ کی چیئرپرسن کو عہدے سے ہٹا دیا گیا، اور محکمہ وائلڈ لائف کو وزارت داخلہ کے تحت کردیا گیا۔ وزارت داخلہ کا کام تو امن و امان کے معاملات دیکھنا ہے، پارک کی دیکھ بھال کا نہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت کے قومی اثاثے کے تحفظ کے حکم کی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے اور حکومتی اقدامات نے عدالتی فیصلے کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ سوال اٹھایا کہ نجی ہوٹل کے مالک کا سیکرٹری کابینہ کے ساتھ کیا تعلق ہے، کیا سیکرٹری کابینہ نجی ہوٹل کے مالک کے بھائی نہیں؟ کابینہ سیکرٹری نے وائلڈ لائف بورڈ کی چیئرپرسن کو ہٹانے کی سمری وزیراعظم سے منظور کروائی، اور نجی ہوٹل کے مالک کابینہ سیکرٹری کے کیا تعلقات ہیں۔

سپریم کورٹ نے سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور مونال ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل کو فوری طلب کرتے ہوئے کیس میں وقفہ دیا۔

وقفے کے بعد اٹارنی جنرل اور کابینہ سیکرٹری عدالت میں پیش ہوئے۔ سیکرٹری کابینہ کامران افضل نے موقف اپنایا کہ مارگلہ نیشنل پارک (Margalla National Park) وزارت داخلہ کو منتقل کرنے کی سمری نہیں بھیجی تھی، وزیراعظم نے خود آ رڈردیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے وزیراعظم کو نہیں بتایا کہ یہ قواعد کی خلاف ورزی ہے، وزیراعظم کا اختیار نہیں کہ وہ جو چاہیں کریں، قواعد بیوروکریٹس ہی بتاتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاقی حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے، اٹارنی جنرل کو حالات کا علم نہیں۔

سماعت کےدوران، سیکرٹری کابینہ کامران افضل کے وزیراعظم کو “صاحب” کہنے پر چیف جسٹس نے کہا “غلامی کی زنجیریں توڑیں، وزیراعظم صاحب نہیں ہوتا”، شہبازشریف صاحب کہیں تو سمجھ آتی ہے، وزیراعظم کے ساتھ ‘صاحب’ نہ لگائیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بیوروکریٹس عوام کے نوکر ہیں، ابھی تک غلامی والی سوچ ختم نہیں ہوئی، سیکرٹری کابینہ کو توہین عدالت کا نوٹس دیا جائے گا، آئین پاکستان کو مذاق بنا دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا نیشنل پارک کی دیکھ بھال وزارت داخلہ کا کام ہے، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی سے نمٹ چکے ہیں، اب پارک کی دیکھ بھال بھی وزارت داخلہ کرے گی، تعلیم اور صحت کے امور بھی وزارت داخلہ کے حوالے کردیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی سے پوچھا کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے حوالے کرنے کا حکم کس نے دیا تھا، سیکرٹری نے کہا کہ ان کی وزارت نے کوئی سمری نہیں بھیجی، یہ وزیراعظم کا فیصلہ تھا۔

سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے بتایا کہ چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا سعید کو ہٹانے کا حکم وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر رومینہ خورشید عالم نے دیا، جس پر رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ انہوں نے رعنا سعید کو ہٹانے کا حکم نہیں دیا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یا تو سیکرٹری صاحب جھوٹ بول رہے ہیں یا رومینہ خورشید صاحبہ، کیا کسی نے اوپر سے فون کیا یا خلائی مخلوق سے رابطہ ہوا؟ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا نیشنل پارک وزارت داخلہ کو منتقل کرنا چاہیے، جس پر سیکرٹری اور کوآرڈینیٹر موسمیاتی تبدیلی نے وزارت داخلہ کو پارک دینے کی مخالفت کی۔

سپریم کورٹ نے چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا سعید کی برطرفی کو روکنے اور وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد روکنے کا حکم دیا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے تحت کرنے کے عمل کو روکنے اور چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ کے عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن واپس لینے کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے کہا کہ منگل کو متوقع کابینہ کے اجلاس میں معاملہ وزیراعظم کے علم میں لائیں گے۔

سپریم کورٹ نے وائلڈ لائف بورڈ سمیت تمام امور وزیراعظم کے نوٹس میں لانے کی ہدایت کرتے ہوئے پائن سٹی سے متعلق تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ کیس کی سماعت 15 اگست تک ملتوی کردی گئی ہے۔
مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔