غم و وفا کی داستان: ساغر صدیقی

ساغر صدیقی ( Saghar Siddiqui) کی داستان محبت، غربت، اور فن کی ایک منفرد کہانی ہے۔ ایک ایسا شاعر، جس کی زندگی کے نشیب و فراز، اس کی شاعری اور شخصیت کی گہرائی میں جھلکتے ہیں۔ ساغر صدیقی (Saghar Siddiqui) کے والد نے ان کی پسند کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ “ہم خاندانی لوگ ہیں، کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے۔” اس رد کے بعد، ساغر نے اپنے گھر کی تمام آسائش اور آرام چھوڑ دیا اور لاہور میں مقیم ہوگئے۔

جب ساغر کی محبوبہ کو پتا چلا کہ ساغر داتا دربار کے قریب ہیں، تو وہ داتا صاحب آ گئیں۔ کئی تلاش کے بعد، آخر کار تاش کھیلتے ہوئے ایک نشئیوں کے جھرمٹ میں ساغر مل گئے۔ اس نے ساغر کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور یہ بھی بتایا کہ اسے اس کے خاوند نے طلاق دے دی ہے، کیونکہ اس نے ان کی داستان محبت سن کر فیصلہ کیا۔ اس نے ساغر سے کہا کہ اگر تم چاہو تو مجھے اپنا لو۔ لیکن ساغر نے جواب دیا، “بندہ پرور کوئی خیرات نہیں، ہم وفاؤں کا صلہ مانگتے ہیں۔”

غربت، ڈپریشن، اور تناؤ کے باعث، ساغر صدیقی (Saghar Siddiqui) کے آخری سال نشے میں گزرے۔ وہ بھیک مانگ کر گزارا کرتے اور گلیوں میں فٹ پاتھ پر سوتے تھے، لیکن ان کی شاعری کبھی نہیں رکی۔

“میری غربت نے میرے فن کا اڑا رکھا ہے مزاق،
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں۔

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے،
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں۔

آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں،
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں۔”

کہتے ہیں کہ جب جنرل ایوب خان پاکستان (General Ayub Khan Pakistan) کے صدر تھے تو ان دنوں جنرل ایوب خان صاحب کو بھارت میں ایک مشاعرے میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا۔ جب مشاعرہ شروع ہوا، تو ایک شاعر نے ایک درد بھری غزل سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔ جب وہ شاعر فارغ ہوا تو جنرل صاحب نے اس سے کہا، “محترم، جو غزل آپ نے ابتدا میں پڑھی، وہ بہت درد بھری تھی۔ یقینا کسی نے خون کے آنسوؤں سے لکھی ہوگی۔” شاعر نے جواب دیا کہ “اس غزل کا خالق آپ کے ملک پاکستان کا ہے، اور اسے ساغر صدیقی کے نام سے جانا جاتا ہے۔”

جب جنرل صاحب پاکستان واپس آئے اور ساغر صدیقی کا پتہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ ساغر لاہور، داتا دربار کے قریب رہتے ہیں۔ جنرل صاحب نے اسی وقت اپنے چند خاص آدمیوں کو تحائف کے ساتھ لاہور بھیجا اور کہا کہ “ساغر صدیقی کو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ میرے پاس لاؤ اور کہنا کہ جنرل ایوب خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔” جب وہ وفد لاہور پہنچا، تو انہوں نے داتا دربار کے سامنے کھڑے چند لوگوں سے ساغر صدیقی کی رہائش کے متعلق پوچھا۔ لوگوں نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ “کون سا شاعر؟ وہ چرسی اور بھنگی آدمی؟”

وفد نے ساغر صدیقی کو نشے میں مست، چرسیوں اور بھنگیوں کے جھرمٹ میں پایا۔ جب انہوں نے جنرل صاحب کا پیغام دیا، تو ساغر نے کہا، “جاو ان سے کہہ دو کہ ساغر کی کسی کے ساتھ نہیں بنتی، اسی لیے ساغر کسی سے نہیں ملتا۔” اس بات پر وہاں موجود ہر نشئی ایک زور دار قہقہے کے ساتھ کچھ دیر کے لیے زندگی کے دیے غموں کو بھول گیا۔

بےپناہ اصرار کے باوجود، ساغر نے ملاقات سے انکار کردیا۔ جنرل ایوب خان نے بعد میں خود ساغر سے ملنے کی کوشش کی۔ جب ان کا سامنا ساغر سے ہوا، تو ساغر کی حالت زار دیکھ کر جنرل صاحب کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ جنرل صاحب نے مصافحہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ساغر نے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا اور کہا:

“جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی،
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے۔”

ساغر صدیقی کی داستان ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حقیقی محبت اور فن کی قدرو قیمت ہر کسی کو سمجھ نہیں آتی۔ معاشرتی مسائل اور ذاتی مشکلات عظیم شخصیات کے مقدر کو دردناک بنا دیتے ہیں۔ ساغر کی شاعری اور زندگی، دونوں ہی انسانی حالت کی پیچیدگیوں کا ایک دردناک عکاس ہیں۔

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔