وفاقی حکومت کی جانب سے یوٹیلیٹی اسٹورز پر سبسڈی ختم ہونے کے بعد ایک بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے تحت ملک بھر میں 446 یوٹیلیٹی اسٹورز (Utility Stores) بند کر دیے گئے ہیں۔ یہ اقدام کارپوریشن کو خسارے سے نکالنے اور غیر منافع بخش اسٹورز کی نشاندہی کے بعد کیا گیا ہے۔
مزید اسٹورز کی بندش کے منصوبے
یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ صرف یہی نہیں بلکہ مزید 500 سے زائد یوٹیلیٹی اسٹورز (Utility Stores) کی بندش کا بھی پلان زیر غور ہے۔ یہ اسٹورز وہ ہیں جن کی کارکردگی ناکافی رہی ہے، جہاں اخراجات زیادہ اور آمدنی کم تھی، جس کی وجہ سے ادارے کو مسلسل نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا۔
دیہی علاقوں پر اثرات
بند کیے جانے والے یوٹیلیٹی اسٹورز کی اکثریت دیہی اور دور دراز علاقوں میں واقع تھی۔ یہ علاقے پہلے ہی بنیادی سہولتوں کی کمی کا شکار ہیں، اور یوٹیلیٹی اسٹورز وہاں کے رہائشیوں کے لیے روزمرہ کی سستی اشیاء کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ تھے۔ ان اسٹورز کی بندش سے وہاں کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، خاص طور پر کم آمدنی والے گھرانوں کو۔
سبسڈی کا خاتمہ
یاد رہے کہ اگست 2024 میں وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر دی جانے والی عمومی سبسڈی کو مکمل طور پر ختم کر دیا تھا۔ تاہم، حکومت اب صرف چند اہم اشیاء جیسے:
چینی
آٹا
گھی
اور دیگر 2 بنیادی مصنوعات پر محدود سبسڈی فراہم کر رہی ہے۔
یوٹیلیٹی اسٹورز کی موجودہ تعداد
ملک بھر میں یوٹیلیٹی اسٹورز کی مجموعی تعداد 3,982 تھی، لیکن حالیہ بندش کے بعد یہ تعداد کم ہو گئی ہے اور مستقبل میں مزید کمی کا امکان ہے۔
کارپوریشن کا مؤقف
یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ادارے کو مالی طور پر مستحکم بنانے کے لیے ضروری تھا۔ ان کے مطابق، ایسے اسٹورز کو بند کرنا جن کی آمدنی ناکافی اور نقصان زیادہ ہو رہا تھا، ایک ناگزیر قدم تھا تاکہ موجودہ وسائل کا بہتر استعمال کیا جا سکے۔
عوام پر اثرات
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اسٹورز کی بندش سے عوام، خاص طور پر دیہی علاقوں کے افراد، مہنگائی کے اس دور میں شدید متاثر ہوں گے۔ وہ لوگ جو ان اسٹورز سے سستی اشیاء حاصل کرتے تھے، اب انہیں مقامی مارکیٹ سے خریدنا پڑے گا جہاں قیمتیں عام طور پر زیادہ ہوتی ہیں۔
مستقبل کا لائحہ عمل
حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ان اقدامات سے ادارے کو مالی خسارے سے نکالنے اور مستقبل میں بہتر حکمت عملی کے تحت خدمات فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ دیہی اور کمزور طبقات کی ضروریات کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔
یہ اقدامات اگرچہ مالی بحران کو کم کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں، لیکن عوام کی ضروریات کو نظرانداز کرنا ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی پریشانیوں کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔