26 نومبر 2024 کا دن پاکستانی تاریخ کے ان دنوں میں شامل ہو گیا جنہوں نے قومی سیاست اور عوامی شعور پر گہرے اثرات چھوڑے۔ پاکستان تحریک انصاف ( PTI ) کے کارکنوں کا دھرنا، حکومت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی، اور بالآخر ریاستی اداروں کا سخت ایکشن، ان تمام عوامل نے ملک کو ایک نئی بحث میں الجھا دیا ہے۔
پس منظر: ایک طویل کشمکش کا آغاز
پی ٹی آئی ( PTI ) کے مظاہرے کا آغاز کئی ہفتوں پہلے ہوا، جب تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کا اعلان کیا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو سنگجانی یا ایچ-9 گراؤنڈ میں جلسے کی اجازت دی گئی تھی۔ تاہم، پی ٹی آئی کی قیادت نے انکار کرتے ہوئے ڈی چوک تک مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہاں بشریٰ بی بی کا مؤقف اہم تھا، جنہوں نے مبینہ طور پر قیادت پر زور دیا کہ مظاہرین کو ڈی چوک پر ہی دھرنا دینا چاہیے۔ اس انکار نے حکومتی اور ریاستی اداروں کے صبر کا امتحان لیا اور بالآخر تصادم کی صورت میں نتیجہ نکلا۔
ڈی چوک: تصادم کا مرکز
ڈی چوک پہنچنے کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے۔ مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے گئے۔ اس پر سیکیورٹی اداروں نے ایکشن لیا، جس میں آنسو گیس، واٹر کینن اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال شامل تھا۔ اس تصادم کے نتیجے میں متعدد مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ کئی جانیں ضائع ہوئیں۔
ہلاکتوں اور زخمیوں کی تفصیلات
اس سانحے میں 12 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ درجنوں زخمی ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور زخمیوں کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کی گئی۔
افغان باشندوں کی موجودگی: ایک نیا سوال
حکومتی اداروں نے دھرنے میں افغان باشندوں کی موجودگی پر بھی تشویش ظاہر کی۔ ان غیر ملکی عناصر کی موجودگی نے دھرنے کی نوعیت کو ایک سیاسی احتجاج سے بڑھا کر قومی سلامتی کا مسئلہ بنا دیا۔
تحریک انصاف کی انتظامیہ اور حکمت عملی
پی ٹی آئی ( PTI ) کی قیادت پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور حکومتی مذاکراتی کوششوں کو نظرانداز کیا۔ انتشار پسند عناصر نے حالات کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا، جس نے دھرنے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔
ریاستی اداروں کا چیلنج
ریاستی ادارے اپنے فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے امن و امان قائم رکھنے کے لیے سخت قدم اٹھائے۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عوامی حلقوں نے اس ایکشن کو غیر ضروری طاقت کا استعمال قرار دیا۔
نتیجہ اور آگے کا راستہ
یہ سانحہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ سیاسی قیادت ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور مستقبل میں عوامی مسائل کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔