اداکارہ نرگس(Nargis) کاویسے تو اصل نام غزالہ ادریس ہے. اداکارہ نرگس(Nargis) کا نام تھیٹر کی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، جہاں انہوں نے اپنے منفرد انداز اور بے باک اداکاری کے ذریعے لاکھوں دل جیتے۔ تاہم، ان کی ذاتی زندگی کا حالیہ باب نہایت تکلیف دہ اور غور طلب ہے۔ نرگس نے 1990 کی دہائی میں تھیٹر سے اپنی پہچان بنائی اور جلد ہی پاکستانی شوبز انڈسٹری میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا۔ ان کی جاندار پرفارمنسز اور رقص کی مہارت نے انہیں تھیٹر کی دنیا میں سپر اسٹار کا درجہ دیا۔ وہ نہ صرف شوبز کی دنیا میں بلکہ سماجی حلقوں میں بھی ایک جانی پہچانی شخصیت تھیں۔
نرگس (Nargis) کی شادی شدہ زندگی ایک المیہ بن گئی جب ان پر ان کے شوہر کی جانب سے مبینہ تشدد کی خبریں منظر عام پر آئیں۔ اطلاعات کے مطابق، نرگس پر بارہا جسمانی اور ذہنی تشدد کیا گیا، جس سے ان کی صحت شدید متاثر ہوئی۔
میڈیا نے نرگس کے کیس کو نمایاں جگہ دی، لیکن سنسنی خیزی کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ اس قسم کے کیسز کو سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ پیش کرنا میڈیا کی اخلاقی ذمہ داری ہے تاکہ عوامی شعور بیدار ہو اور خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
خواتین کے خلاف تشدد: ایک سماجی مسئلہ
یہ واقعہ پاکستان میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے وسیع مسئلے کی عکاسی کرتا ہے۔ سالانہ ہزاروں خواتین جسمانی، ذہنی اور جذباتی تشدد کا شکار ہوتی ہیں، مگر معاشرتی دباؤ اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے زیادہ تر کیسز رپورٹ نہیں ہو پاتے۔
قانونی نظام کی کمزوریاں
پاکستان میں گھریلو تشدد کے کیسز میں انصاف کی فراہمی سست اور اکثر غیر موثر رہتی ہے۔ نرگس کے کیس نے ایک بار پھر اس بات کو واضح کیا کہ خواتین کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
نرگس (Nargis) کا کیس ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ گھریلو تشدد کو محض ذاتی مسئلہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے معاشرتی سطح پر رویوں میں تبدیلی ضروری ہے۔
اداکارہ نرگس کی زندگی کی یہ المیہ داستان معاشرے کے ہر فرد کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کب اٹھائے جائیں گے۔ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی، تو کل ہماری بے حسی کا خمیازہ کسی اور کو بھگتنا پڑے گا۔
یہ کالم معاشرے کے ہر فرد کو دعوت دیتا ہے کہ وہ گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور اس مسئلے کے حل کے لیے جدوجہد کرے۔