از: انور ظہیر رہبر، برلن جرمنی
29ویں اقوام متحدہ موسمیاتی تبدیلی کانفرنس 11 نومبر سے 23 نومبر 2024 تک آذربائیجان (Azerbaijan) کے دارالحکومت باکو میں منعقد ہوئی۔ آذربائیجان (Azerbaijan) میں موسمیاتی سربراہی اجلاس میں مندوبین نے دو ہفتوں سے زیادہ عرصے تک ایک دوسرے سے بات چیت اور مشورہ کرتے نظر آئے ۔ اور اس طویل بحث کے بعد رات کی طوالت میں ایک معاہدہ طے تو پاگیا لیکن بہت سے شرکاء بہت مایوس ہی رہے۔ آخر وہاں کونسا اور کیسافیصلہ ہوا؟
باکو (آذربائیجان (Azerbaijan)) میں عالمی موسمیاتی کانفرنس 24 نومبر 2024ء کی رات کوئی 30 گھنٹے سے زیادہ تاخیر سے ختم ہوئی۔ اس کانفرنس میں تقریباً 200 ممالک کے کل 40,000 شرکاء نے اپنا اندراج کروایا تھا جس میں سربراہان مملکت و حکومت کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں، سائنس، صنعت اور توانائی کے شعبے کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ مندوبین آخر وقت تک ایک فیصلے پر بحث کرتے رہے۔
آذربائیجان (Azerbaijan) کے دارالحکومت میں اولمپک اسٹیڈیم کے مذاکراتی کمروں اور راہداریوں نےسمجھوتہ کرنے کی کوشش میں مندوبین کی مدد کی ، جہاں مختلف موضوعات پر مکمل توجہ دی گئی۔ فیصلے کا محور ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمی بحران کے نتائج سے نمٹنے کے لیے مالی معاونت تھا۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس میں نمایاں اضافہ کیا جائے گا۔ 100 بلین امریکی ڈالر کا موجودہ سالانہ اعداد و شمار 2035 تک کم از کم 300 بلین ڈالر تک بڑھنے کی توقع کی گئی ہے۔ یہ اضافی پیسہ بھی بنیادی طور پر امیر صنعتی ممالک کے ذریعہ ہی لیا جائے گا اور توانائی کی منتقلی اور توانائی کا نعمہ البدل تلاش کرنے کے لیے ہی خرچہ کیا جانا چاہئے۔
نیا مالی ہدف پہلے کی نسبت تین گنا زیادہ ہونے کے باوجود متاثرہ ممالک کے مطالبات سے بہت ہی کم ہے۔ انہوں نے سبسڈی کے اعلی تناسب کے ساتھ ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن پھر انہیں 300 بلین ڈالر پر ہی اتفاق کرنا پڑا اور یہ اضافی رقم صرف عوام سے حاصل کردہ ٹیکس ہی سے نہیں پورا کیا جائے گا بلکہ اس کے لیے نجی سرمایہ کاروں کو بھی متحرک کیا جائے گا۔
یورپی یونین اور دیگر صنعتی ممالک چاہتے تھے کہ دوسرے ممالک جن کے پاس اب زیادہ دھویں کے اخراج کے باعث موسمی تبدیلی آرہی ہے انہیں بھی ان اعداد و شمار کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور ان میں چین، اور خلیجی ریاستیں جیسے سعودی عرب، جن کی دولت زیادہ تر تیل اور گیس کی برآمد پر مبنی ہے، بھی اسی میں شامل کیا جائے ۔ 1990 کی دہائی میں اقوام متحدہ کے مطابق ان ممالک کو اب بھی “ترقی پذیر ممالک” کے طور پر سمجھا جاتا ہےاور یورپی یونین اسے اب ترقی یافتہ ملک کی فہرست میں شامل کرکے انہیں بھی اس اضافی رقم میں اپنا حصہ ڈالنے کا مطالبہ کررہی تھی۔ لیکن جو قرارداد منظور کی گئی وہ ایک سمجھوتے کی طرح ہی منظور کی گئی ہے مستقبل میں، کثیرالطرفہ ترقیاتی بینکوں کے ذریعے آب و ہوا کے منصوبوں کے لیے جمع کیے گئے تمام فنڈز کو ایک ساتھ شمار کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر چین کے تعاون کو بھی مدنظر رکھا جائے گا ۔ اس کے علاوہ، وہ ممالک جو ابھی تک روایتی عطیہ دہندگان نہیں ہیں، اپنے دو طرفہ آب و ہوا کے منصوبوں میں رضاکانہ طور پر شامل ہوسکتے ہیں اور اس طرح سے ابتک ہونے والی رقم کی تقسیم پر اس فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
آذربائیجان (Azerbaijan) کانفرنس سے پہلے ہی یہ بات واضح تھی کہ باکو میں آب و ہوا کے تحفظ میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوپائے گی کیونکہ اس کا زیادہ تر درومدار پیسے پر ہی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ یہ ساری ریاستیں آب و ہوا کو نقصان پہنچانے والی گرین ہاؤس گیسوں کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات پر متفق نہیں ہو سکیں۔ اس بات پر ہونے والے فیصلے کو موخر کرنا پڑا کیونکہ چلی، مالدیپ اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک نے قرارداد کے مسودے کو بہت زیادہ غیرجانبدار پایا۔ مبصرین کے مطابق، پس پردہ سعودی عرب نے خاص طور پر اس ایندھن سے دور جانے کے موجودہ معاہدے پر پانی پھیرنے کی کوشش کی۔ تاہم یہ بھی منظور نہیں کیا جاسکا.
ریاستوں نے اخراج کی تجارت کے قوانین پر بھی اتفاق کیا۔ بنیادی طور پر، یہ دیگر ممالک میں ماحولیاتی تحفظ کے منصوبوں کے ذریعے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تلافی کرنے والی کمپنیوں یا ریاستوں کے بارے میں ہے۔ شدید موسمی واقعات جیسے طوفان، خشک سالی یا سیلاب سے متاثر ہونے والے ممالک بھی جلد ہی مدد کی امید کر سکتے ہیں کیونکہ آب و ہوا سے متعلق نقصانات کے لیے فنڈ کے آغاز کرنے کا باکو میں اعلان کیا گیا ہے۔ پہلے منصوبوں کو ممکنہ طور پر اگلے سال مالی اعانت فراہم کی جا سکتی ہے۔ یہ فنڈ، جو کہ ورلڈ بینک میں واقع ہے، 2022 میں پہلے ہی طے ہو چکا تھا۔ کانفرنس کی صدارت کے مطابق، تاریخ کے وعدوں کی رقم 730 ملین ڈالر سے زیادہ ہے، جو متاثرہ ممالک میں درکار رقم کا ایک حصہ ہے۔