پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی جانب سے جوڈیشل کمیٹی میں مساوی نمائندگی کے وعدے کی خلاف ورزی پر شدید احتجاج کیا اور بطور ردِ عمل اپنے نام کو جوڈیشل کمیشن کمیٹی (Judicial Commission Committee) سے واپس لے لیا۔ بلاول بھٹو نے مسلم لیگ (ن) پر الزام عائد کیا کہ وہ اہم قومی معاملات پر کیے گئے وعدوں سے منحرف ہو رہی ہے اور مشاورت کے عمل میں پیپلز پارٹی کو نظر انداز کر رہی ہے۔
بلاول بھٹو کی ناراضی کا یہ عمل پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کی عکاسی کرتا ہے۔ ذرائع کے مطابق، بلاول بھٹو نے بطور احتجاج گزشتہ ہفتے جوڈیشل کمیشن سے اپنا نام واپس لے لیا اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (CEC) کے اجلاس کا فیصلہ کیا۔ کہا جا رہا ہے کہ بلاول بھٹو اپنی وطن واپسی پر کمیٹی کا اجلاس طلب کریں گے جس میں حکومت کے ساتھ اتحاد پر غور کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ حکومتی اتحاد نے ابتدائی طور پر قومی اسمبلی سے جوڈیشل کمیشن کمیٹی (Judicial Commission Committee) کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سینیٹ سے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کو نامزد کیا تھا۔ بعد ازاں، قومی اسمبلی سے مسلم لیگ (ن) کے رکن شیخ آفتاب کی نامزدگی عمل میں آئی، جبکہ اپوزیشن سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب اور خاتون نشست پر روشن خورشید بروچہ کو منتخب کیا گیا۔ سینیٹ سے پی پی پی کے سینیٹر فاروق نائیک اور پی ٹی آئی کے سینیٹر و اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کو بھی کمیشن کا حصہ بنایا گیا۔
26ویں آئینی ترمیم کے تحت، جوڈیشل کمیشن کمیٹی میں 13 ارکان شامل ہوں گے جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے، اس کمیشن میں عدالتِ عظمیٰ کے 3 سینیئر ترین ججز اور آئینی بینچ کا سب سے سینئر جج بھی شامل ہو گا۔ اگر آئینی بینچ کا سینیئر جج پہلے سے کمیشن کا رکن ہو تو اس کے بعد کا سینیئر جج کمیشن کا حصہ بنے گا۔ یہ ترمیم کمیشن کی فعالیت اور آزادی کو یقینی بنانے کے لیے اہم سمجھی جا رہی ہے۔
تاریخی طور پر، یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے کیونکہ اب پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب ممکن بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس بنتا تھا، مگر اب یہ طریقہ کار بھی تبدیل ہو چکا ہے۔