عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کیس (Tosha Khana case) اور دیگر الزامات کے تحت کئی قانونی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ جولائی میں عدت کیس میں بریت کے بعد عمران خان اور ان کی اہلیہ کو توشہ خانہ کیس میں گرفتار کیا گیا۔ بشریٰ بی بی کی ضمانت گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے منظور کی، جس کے بعد وہ رہا ہو چکی ہیں، جبکہ عمران خان توشہ خانہ ون کیس میں 5 اگست 2023 سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں آج عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی، جہاں بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے اپنے دلائل پیش کیے۔ سماعت کے دوران ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کے سامنے کہا کہ میڈیا میں پہلے ہی قیاس آرائیاں ہیں کہ ضمانت منظور ہو جائے گی، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میڈیا کو چھوڑ کر کیس کے حقائق پر توجہ دی جائے۔
وکیل صفدر نے عدالت کو بتایا کہ بشریٰ بی بی سے متعلق چالان میں موجود رسید کے مطابق تحائف کی قانونی قیمت ادا کی گئی تھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ قیمت کس بنیاد پر لگائی گئی تھی؟ وکیل صفدر نے کہا کہ اس کا جواب استغاثہ کے پاس ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ توشہ خانہ کیس (Tosha Khana case) کو درج کرنے میں ساڑھے تین سال کی تاخیر کی گئی، جس سے مقدمے کی شفافیت پر سوال اٹھتا ہے۔
دلائل کے دوران ایف آئی اے نے مؤقف اپنایا کہ توشہ خانہ کے تحائف کو جان بوجھ کر کم قیمت پر ظاہر کیا گیا اور ریاست کو نقصان پہنچایا گیا۔ پراسیکیوٹر نے الزام لگایا کہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ نے ان تحائف سے مالی فائدہ اٹھایا۔ جس پر جسٹس اورنگزیب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “بیوی کی چیزیں شوہر کی نہیں ہوتیں، ہم یہ کس دنیا کی باتیں کر رہے ہیں۔”
عدالت نے کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد عمران خان کی 10 لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت منظور کر لی اور انہیں فوری رہائی کا حکم دیا، مگر ہدایت دی کہ وہ ٹرائل کورٹ میں پیش ہوں۔ عدالت نے واضح کیا کہ اگر ٹرائل میں تعاون نہ کیا گیا تو ضمانت واپس لی جا سکتی ہے۔
اگرچہ عمران خان کی ضمانت منظور ہوئی، مگر وہ دیگر 16 مقدمات کی وجہ سے فوری طور پر رہائی حاصل نہیں کر سکتے۔ ان مقدمات میں انسداد دہشت گردی، کار سرکار میں مداخلت، اور دیگر الزامات شامل ہیں، جو مختلف تھانوں میں درج کیے گئے ہیں۔