سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کے بچوں کو ملازمتیں دینے کے کوٹے کی پالیسی ( Quota Policy ) کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ یہ فیصلہ 11 صفحات پر مشتمل ہے اور جسٹس نعیم اختر افغان نے تحریر کیا ہے۔
فیصلے کی تفصیلات
عدالت نے جی پی او (گورنمنٹ پرائویٹ آفس) کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے 2021 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ فیصلے میں پرائم منسٹر پیکیج فار ایمپلائمنٹ پالیسی، اس کے آفس میمورنڈم، اور سندھ سول سرونٹس رولز 1974ء کے سیکشن 11 اے کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سرول سرونٹس رولز میں شامل متعلقہ شقیں بھی منسوخ کر دی گئیں۔
آئینی تشریح
عدالت نے واضح کیا کہ اشتہار یا اوپن میرٹ کے بغیر سرکاری ملازمین کے بچوں کو ملازمتیں دینا آئین کے مختلف آرٹیکلز، مثلاً آرٹیکل 3، 4، 5، 25 اور 27 کے ساتھ متصادم ہے۔ اس فیصلے کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو یہ پالیسی فوراً ختم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، جبکہ یہ فیصلہ پہلے سے سرکاری ملازمین کے بچوں کو ملنے والے کوٹے پر لاگو نہیں ہوگا۔
شہداء کے ورثاء کا تحفظ
عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس فیصلے کا اطلاق دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والے افراد کے ورثاء پر نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ شہداء کے ورثاء کو ملنے والے پیکجز اور پالیسیز متاثر نہیں ہوں گی۔
وزیرِ اعظم کی حدود
سپریم کورٹ نے وزیرِ اعظم کو بھی خبردار کیا کہ انہیں کوٹے ( Quota Policy ) سے متعلق رولز نرم کرنے کا اختیار نہیں ہے، اور یہ کہ اچھے طرزِ حکمرانی کا حصول غیر مساوی سلوک کے ذریعے ممکن نہیں۔
پس منظر
یہ مقدمہ شہری محمد جلال نے اپنے والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت کے حصول کے لیے دائر کیا تھا، جس پر پشاور ہائی کورٹ نے انہیں کنٹریکٹ پر ملازمت دینے کی ہدایت کی۔ اس فیصلے کے خلاف جی پی او نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، جس کے نتیجے میں یہ اہم فیصلہ سامنے آیا۔
یہ فیصلہ سرکاری ملازمتوں میں شفافیت اور میرٹ کی بنیاد پر بھرتیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست کو برابری کی بنیاد پر مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔