لاہور ہائیکورٹ کا فل بینچ تشکیل، پنجاب کالج مظاہروں اور سوشل میڈیا کی تحقیقات شروع۔

لاہور میں حالیہ ریپ کی افواہوں اور مظاہروں کے پس منظر میں لاہور ہائیکورٹ (Lahore High Court ) نے ایک فل بینچ تشکیل دیا ہے تاکہ تعلیمی اداروں میں خواتین کے تحفظ اور سوشل میڈیا پر پھیلنے والی فیک نیوز کے معاملے کی اعلی سطحی تحقیقات کی جا سکے۔ یہ فیصلہ آج چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں ہوا۔

درخواست کا پس منظر
عظمی بخاری اور اعظم بٹ کی جانب سے دائر درخواست میں بتایا گیا کہ تعلیمی اداروں میں خواتین کی حفاظت کی صورت حال انتہائی خراب ہے۔ درخواست میں ہراسانی اور تشدد کے بڑھتے واقعات کی نشاندہی کی گئی اور ان کے خلاف مؤثر حفاظتی اقدامات کرنے کی استدعا کی گئی۔

عدالت میں پیشی
آئی جی پنجاب عثمان انور، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، اور دیگر متعلقہ حکام عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ دوران سماعت، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے سخت سوالات کیے، خاص طور پر اس بارے میں کہ متعلقہ حکام نے بچی کی ویڈیو وائرل ہونے سے کیوں نہیں روکا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ (Lahore High Court ) نے ریمارکس دیے، “آج 18 تاریخ ہے، جبکہ یہ ویڈیو 13 اور 14 تاریخ کو وائرل ہونا شروع ہوئی۔ آپ نے وقت پر کارروائی کیوں نہیں کی؟”

سوشل میڈیا کا کردار
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 12 اکتوبر کو ایک انسٹاگرام پوسٹ کے ذریعے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ “نجی کالج میں لڑکی کا ریپ ہوا ہے”۔ انہوں نے کہا کہ اسی روز ایس ایس پی نے متعلقہ کیمپس میں جا کر تحقیقات شروع کیں، لیکن متاثرہ بچی سامنے نہیں آئی۔

خودکشی کا معاملہ
چیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی میں ایک بچی کی خودکشی کے بارے میں بھی پوچھا۔ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ بچی کے والدین نے پوسٹ مارٹم کروانے سے انکار کر دیا ہے اور اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔

تعلیمی اداروں میں ہراسانی کی شکایات
عدالت میں یہ بھی معلوم ہوا کہ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں ایک مرد کلرک کے خلاف ایک شکایت آئی تھی، جس پر اسے معطل کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس شخص کے پاس طالبہ کا نمبر کیسے آیا۔

اگلی سماعت کا حکم
چیف جسٹس نے یہ بھی بتایا کہ فل بینچ منگل کے روز سوشل میڈیا پر پھیلنے والی فیک نیوز اور تعلیمی اداروں میں ہونے والے حالیہ واقعات کی سماعت کرے گا۔ انہوں نے ڈی جی ایف آئی اے کو بھی ان واقعات کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا اور انہیں ذاتی حیثیت میں اگلی سماعت پر طلب کیا۔

یہ مقدمہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معاشرتی مسائل اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قانونی نظام کی ذمہ داریوں کا احاطہ کیا جا رہا ہے، اور عدالت ان مسائل پر توجہ دے رہی ہے۔

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔