چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریک انصاف کی جانب سے التواء کی درخواست کو تاخیری حربہ قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں ان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات (PTI intra-party elections) کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواست کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس 29 مئی کی کاز لسٹ میں شامل ہونا تھا، تاہم ایڈووکیٹ علی ظفر کی 4 جون تک عمومی التوا کی درخواست پر ایک بینچ کے رکن کی اوپن ہارٹ سرجری کے باعث تاخیر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ایک ڈھولچی نے اس کیس کو بلے کے نشان کا معاملہ بنا دیا ہے اور ان کی تنقید کا جواب دینے سے پہلے عدالت کے فیصلے کو سمجھنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر کوئی وفات یا صحت کی خرابی ہو تو التوا کی درخواست جائز ہوتی ہے، لیکن تحریک انصاف کی جانب سے التوا طلب کرنا صرف وقت گزارنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیس مزید ملتوی نہیں کیا جائے گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تحریک انصاف کے تمام وکلاء پیش نہیں ہوئے اور کوئی معاون بھی موجود نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے فیصلہ کیا کہ انصاف کے تقاضوں کے تحت کیس ملتوی کیا جا رہا ہے، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ یہ التوا کسی ایک وکیل کے لیے نہیں، بلکہ انصاف کی خاطر دیا جا رہا ہے۔
بعد ازاں، سپریم کورٹ نے تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات (PTI intra-party elections) کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست کی سماعت 21 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ حکمنامے میں کہا گیا کہ حامد خان کی جانب سے پیش کردہ خاندانی مصروفیات کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں، اور اگر یہ مصروفیات تھیں تو دیگر وکلاء کی خدمات حاصل کی جا سکتی تھیں۔ حکمنامے میں یہ بھی کہا گیا کہ التوا کی درخواست مسترد کی جاتی ہے، اور آئندہ مزید التوا نہیں دیا جائے گا۔