اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں ایک نئے موڑ کا سامنا ہے، جہاں ایرانی فوج نے مبینہ طور پر اسرائیل کی جانب 400 بیلسٹک میزائل داغے ہیں۔ ان میزائل حملوں کے نتیجے میں اسرائیل کے مختلف علاقوں میں ہلاکتوں اور عمارتوں کی تباہی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جن میں نگیو کے نیوکلیئر پاور اسٹیشن کے قریب بھی چند میزائل گرے۔ اسرائیلی شہریوں نے اس خوف کے باعث پناہ گاہوں کی طرف بھاگنا شروع کر دیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری نے کہا ہے کہ “ہم دفاع اور جوابی کارروائی (Israel’s threat of retaliation) کے لیے پوری طرح تیار ہیں” اور اس بات پر زور دیا کہ جواب کا وقت اور طریقہ مناسب ہوگا۔ انہوں نے شہریوں کو شیلٹرز سے باہر آنے کی اجازت دیتے ہوئے اطمینان دلایا کہ فوج ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
ینئیل ہگاری نے ایرانی حملے کے بعد ٹیلی ویژن پر آخر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج ’دفاع اور جوابی کارروائی (Israel’s threat of retaliation) کے لیے پوری طرح تیار ہے
امریکہ نے بھی اسرائیل کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے امریکی فوج کو اسرائیل کا دفاع کرنے کی ہدایت دی ہے اور کہا ہے کہ “ایران کا حملہ ناکام رہا ہے اور اسے اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔” وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے اور پوری دنیا کو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل کی کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسرائیل کو نہ روکا گیا تو اس کی نگاہیں ترکی پر بھی ہوں گی۔ انہوں نے بین الاقوامی تنظیموں، خاص طور پر اقوام متحدہ، سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اسرائیل کو روکے۔
برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر نے بھی ایران کی کارروائی کی مذمت کی اور کہا کہ برطانیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے لبنان کی صورت حال کو سنگین قرار دیتے ہوئے برطانوی شہریوں کو وہاں سے نکل جانے کی ہدایت کی۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے موجودہ صورتحال کے لیے بائیڈن انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی جنگ پوری دنیا میں پھیل سکتی ہے، اور اگر وہ منتخب ہوئے تو خطے میں امن بحال کرنے کا عزم کیا۔