سینیٹ کی آبی وسائل کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان کی آبی صورتحال پر تشویشناک انکشافات (Water Crisis in Balochistan) سامنے آئے ہیں۔ اجلاس کی صدارت سینیٹر شہادت اعوان نے کی، جس میں حکام نے اعتراف کیا کہ 2021 کے بعد صوبے میں پانی کے وسائل پر کوئی سروے نہیں کیا گیا۔
اجلاس کے دوران بلوچستان میں زیرِ زمین پانی کی سنگین قلت (Water Crisis in Balochistan) اور اس کے حل کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔ حکام نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے 2021 میں سروے کے لیے فنڈز فراہم کیے، لیکن اس کے بعد کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ کوئٹہ میں پانی کی قلت سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین نے سوال کیا کہ بلوچستان میں پانی کی قلت کو کم کرنے کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ اس پر صوبائی حکام نے کہا کہ ٹیوب ویلز کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بحران کی بڑی وجہ ہے۔ بلوچستان میں 46 ہزار رجسٹرڈ ٹیوب ویلز ہیں، لیکن حقیقت میں ان کی تعداد لاکھوں میں ہے، جن میں سے کئی غیر قانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان غیر قانونی ٹیوب ویلز نہ صرف پانی نکال رہے ہیں بلکہ بجلی بھی چوری کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے صوبے میں بجلی چوری کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔
اجلاس کے دوران پانی کی قلت اور غیر قانونی ٹیوب ویلز کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مزید سخت اقدامات پر زور دیا گیا۔