جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کے پاس اتنی بڑی آئینی ترمیم کرنے کا مینڈیٹ (Constitutional amendment mandate) نہیں ہے اور ایسی ترمیم کا ان سے منظور کرانا ایک بڑی ناانصافی ہوگی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر آئینی ترمیم کے ذریعے بنیادی حقوق کو نظرانداز کر کے فوج کو بے حد مضبوط کیا جاتا ہے، تو اس کے نتیجے میں مارشل لا اور اس ترمیم میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اسی وجہ سے آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کی کیونکہ یہ بالواسطہ مارشل لا جیسا ہی اقدام ہوتا۔
پشاور میں انٹرا پارٹی انتخابات میں بلامقابلہ امیر منتخب ہونے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام ہر پانچ سال میں عوامی سطح پر رکن سازی کرتی ہے اور اسرائیل کی جارحیت پر عرب ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عرب دنیا نے ایک مشترکہ دفاعی حکمت عملی نہ اپنائی تو یہ آگ پوری عرب دنیا تک پھیل سکتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اسلامی دنیا کو اکٹھا کرنے کی قیادت پاکستان، سعودی عرب، ملائیشیا، انڈونیشیا اور مصر کو کرنی چاہیے تاکہ ایک مضبوط دفاعی اتحاد تشکیل دیا جا سکے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) آئینی ترامیم پر بات چیت کر رہے ہیں اور دونوں جماعتیں اپنے مسودے ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں گی تاکہ ملک میں اصلاحات کا عمل بہتر انداز میں آگے بڑھایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے پارلیمنٹ کی موجودہ حیثیت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ جعلی مینڈیٹ والی پارلیمنٹ اتنی بڑی آئینی ترمیم کرنے کی اہل (Constitutional amendment mandate)نہیں ہے۔
انہوں نے فاٹا اور بلوچستان کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انضمام کے بعد فاٹا کے قبائل زیادہ مشکلات کا شکار ہیں اور بلوچستان میں بدامنی اور لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہو چکا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ریاستی رٹ ختم ہو چکی ہے اور حکومت کو فوری طور پر ترجیحات کا ازسر نو تعین کرنا چاہیے۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر علی امین گنڈاپور کے انقلاب لانے کے بیان پر انہوں نے کہا کہ ایسے بیانات کی کوئی حیثیت نہیں اور انہیں اہمیت دینا اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ مولانا نے پی ٹی آئی کے جلسوں کی اجازت نہ دینے کو غیر جمہوری عمل قرار دیا اور کہا کہ حکومت کو تنگ نظری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے جبکہ صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ کے لب و لہجے کو ناتجربہ کاری کا نتیجہ قرار دیا۔