پاکستان کے سینکڑوں وکلا نے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججز(Supreme and High Court Judges ) سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی نئی مجوزہ عدالت کا حصہ نہ بنیں۔
ملک بھر سے 300 سے زائد سینئر وکلا، جن میں منیر احمد کاکڑ، عابد ساقی، ریاست علی آزاد، عابد حسن منٹو، بلال حسن منٹو، اور صلاح الدین شامل ہیں، نے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججز (Supreme and High Court Judges ) کے نام ایک کھلا خط جاری کیا ہے۔ خط میں وکلا نے درخواست کی ہے کہ معزز ججز کسی بھی نئی عدالت میں شامل نہ ہوں، کیونکہ اس عدالت کی حیثیت پی سی او کورٹ سے مختلف نہیں ہوگی، اور اس کے ججز کو بھی پی سی او ججز کی طرح دیکھا جائے گا۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مجوزہ ترامیم کا مسودہ عوامی بحث کے بغیر رات کی تاریکی میں سامنے آیا، اور متعدد منتخب نمائندے خود اس مسودے سے لاعلم تھے۔ وکلا کا موقف ہے کہ یہ آئینی ترامیم ان کی حمایت کے بغیر لائی جا رہی ہیں اور انہیں مؤثر طریقے سے عوامی سطح پر زیر بحث نہیں لایا گیا۔
وکلا نے ججز سے اپیل کی کہ وہ آئین کے تحفظ کے حلف کو مدنظر رکھیں اور تاریخ میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ خط میں واضح کیا گیا ہے کہ “جب تاریخ لکھی جائے، تو یقینی بنائیں کہ آپ کا نام اُن لوگوں میں ہو جو آئین کے محافظ تھے، نہ کہ اس کے مخالفین میں
واضح رہے کہ حکومت نے حال ہی میں آئینی ترامیم پر اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن ناکامی کے بعد اب دوبارہ جلد ہی پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف، بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ یہ آئینی ترمیم کسی مخصوص شخص کی وجہ سے نہیں کی جا رہی بلکہ آئینی اصلاحات کا حصہ ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اس ترمیم کے تحت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججز کی تعیناتی اور اختیارات سے متعلق مختلف ترامیم شامل ہیں۔
ان ترامیم میں آئین کی شقیں 51، 63، 175، 187 سمیت دیگر شقیں شامل ہیں، اور بلوچستان اسمبلی کی نشستیں 65 سے بڑھا کر 81 کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اسی طرح، آئین کے آرٹیکل 63 میں ترامیم کی جائیں گی، جس میں منحرف اراکین کے ووٹ سے متعلق قوانین کو تبدیل کیا جائے گا، اور آئینی عدالت کے فیصلوں پر اپیل کا حق آئینی عدالت میں ہی دیا جائے گا۔
آرٹیکل 181 میں بھی ترمیم کا امکان ہے، لیکن چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ اس ترمیم میں یہ بھی شامل ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دیگر صوبائی ہائیکورٹس میں بھیجا جا سکے گا، اور چیف جسٹس کا تقرر سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین ججز کے پینل میں سے ہوگا۔
مجوزہ آئینی ترامیم میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے تاکہ ججز کی تعیناتی کا عمل زیادہ شفاف اور مؤثر بنایا جا سکے۔
مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔