پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ذرائع کے مطابق راولپنڈی میں ہونے والے احتجاج کے اختتام کا فیصلہ ( Protest End) خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے نہیں کیا۔ بلکہ یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے کیا، جس کی تصدیق چیئرمین بیرسٹر گوہر کی جانب سے ایک واٹس ایپ پیغام کے ذریعے کی گئی۔ یہ پیغام سوا سات بجے موصول ہوا، جس میں وزیر اعلیٰ کو ہدایت دی گئی کہ وہ قافلے کے ساتھ خیریت سے واپس جائیں۔
قبل ازیں، علی امین گنڈاپور نے برہان انٹرچینج سے پشاور واپس جانے کا اعلان کیا تھا۔ راولپنڈی میں لیاقت باغ کے مقام پر احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم شہر کے مختلف مقامات پر کنٹینرز لگا کر راستے بند کر دیے گئے تھے، جس کی وجہ سے گنڈاپور کا قافلہ برہان انٹر چینج پر کئی گھنٹے پھنسے رہا، جس کی وجہ سے برہان انٹر چینج پر کارکنوں سے خطاب کیا. یہ قافلہ راولپنڈی نہیں پہنچ سکا اور وہ ہیں سے واپس روانہ ہوگیا۔
گنڈاپور کے واپسی کے اعلان ( Protest End) پر پی ٹی آئی کارکنوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے نعرے بازی کی اور لیڈر شپ کے خلاف جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اراکین اسمبلی اور وزراء کی گاڑیوں کا گھیراؤ بھی کیا۔ کارکنان کا کہنا تھا کہ وہ احتجاج کر کے ہی واپس جائیں گے۔
علی امین گنڈاپور نے یہ بھی شکایت کی کہ حکومت انہیں اپنے آئینی حقوق سے محروم کر رہی ہے، اور اس دوران پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور فائرنگ کی گئی۔ گنڈاپور نے اپنے خطاب میں کہا کہ “یہ حکومت ہمیں آئینی حق نہیں دیتی۔” انہوں نے واضح کیا کہ پارٹی کی بنیاد رکھنے والے کے حکم پر ہر صورت احتجاج ریکارڈ کرانا ضروری ہے۔
گنڈاپور نے مزید کہا کہ “راولپنڈی میں وقت ختم ہے، اور بیرسٹر گوہر سے بات ہوئی ہے کہ احتجاج کا وقت ختم ہوا۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ “یہ تحریک جاری رہے گی، آپ سب دیکھ لیں کہ میری گاڑی فرنٹ پر کھڑی ہے۔”
کارکنوں کی جانب سے ردعمل کے باوجود، گنڈاپور نے کہا کہ “آرام سے واپس جائیں، واپسی پر کھانے کا انتظام ہوگا۔”