وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب (Federal finance Minister Muhammad Aurangzaib) نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نان فائلر کی اصطلاح ختم کرنے جا رہی ہے۔ اس اقدام کا مقصد ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرنا ہے، تاکہ وہ اہم کاروباری سرگرمیوں اور مالی خدمات سے محروم ہو جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کے پاس عوام کے طرز زندگی کا مکمل ڈیٹا موجود ہے، جس میں گاڑیوں کی تعداد، جائیداد کی معلومات، اور بیرون ملک سفر کے ریکارڈ شامل ہیں۔
وزیر خزانہ نے یہ بھی وضاحت کی کہ حکومت تنخواہ دار طبقے اور مینوفیکچرنگ سیکٹر پر عائد اضافی ٹیکس بوجھ میں کمی کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ معیشت میں نمو کو فروغ دیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ وقت میں معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت کو اصلاحات کی ضرورت ہے۔
معیشت کی بنیادیں مضبوط کرنے کی ضرورت
وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو ملک کی معیشت میں بنیادی اصلاحات لانا لازمی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی مجموعی ترقی اگر چار فیصد سے اوپر جاتی ہے تو ترسیلات زر میں کمی واقع ہوتی ہے، جس کی وجہ سے معیشت کی بہتری میں رکاوٹ آتی ہے۔
اورنگزیب نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں تقریباً نو ہزار ارب روپے کی غیر دستاویزی معیشت موجود ہے، جسے دستاویزی شکل میں لانے سے ملک کی معیشت کو دوہرے عددی نمو کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ٹیکس نیٹ میں ریٹیلرز، ہول سیلرز، زراعت اور پراپرٹی کے شعبے کو شامل کرنا ضروری ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیے بغیر انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی حکمت عملی پر زور دیا گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کے لیے اب معاشی اصلاحات کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ ماضی میں پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا رہا ہے اور مستقبل میں اس میں مزید اضافے کی امید ہے۔
چین کے قرض پروگرام کی وضاحت
آخری طور پر، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے (Federal finance Minister Muhammad Aurangzaib) چینی قرض پروگرام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دوست ممالک سے جو قرضے لیے ہیں، ان میں چین کا حصہ سب سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے آئی ایم ایف یہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ قرضے کیسے واپس کیے جائیں گے۔ اس طرح، ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔