سپریم کورٹ میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اسلامی یونیورسٹی کے وکیل ریحان الدین گولڑہ کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔ اسلامی یونیورسٹی کی ریکٹر، ثمینہ ملک(Samina Malik) ، جو عدالت میں وہیل چیئر پر پیش ہوئیں، پر الزام تھا کہ وہ بیماری کا بہانہ بنا کر اجلاسوں میں شرکت سے گریز کرتی ہیں۔
سماعت کے دوران وکیل نے چیف جسٹس پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے ڈاکٹر ثمینہ کا میڈیکل سرٹیفکیٹ جعلی قرار دیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے اعتراض کیا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات میں فرق کی وجہ سے شک پیدا ہوا۔ وکیل نے اپنی بات جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن چیف جسٹس نے انہیں بدتمیزی پر تنبیہ کرتے ہوئے روسٹرم سے ہٹا دیا۔
مزید برآں، چیف جسٹس نے ثمینہ ملک (Samina Malik) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کام نہیں کر سکتیں تو عہدہ چھوڑ دیں، جبکہ وکیل نے اعتراض کیا کہ چیف جسٹس کو اس کیس کی سماعت سے علیحدہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ بطور یونیورسٹی بورڈ رکن پہلے بھی ان معاملات سے جڑے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بورڈ میں ہونا قانونی ہے اور میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے والوں پر بھی شدید تنقید کی۔