عدلیہ کے ججوں کی ملازمت کی مدت میں توسیع کے لیے آئینی ترمیم کے معاملے میں حکومت نے نمبر گیم کے حساب کتاب کو سامنے لایا ہے۔ پی ٹی آئی کے حمایتی چار اراکین آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔
ذرائع کے مطابق، سینٹرل پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو اراکین، جو سنی اتحاد کونسل سے ہیں، بھی ممکنہ طور پر ووٹ دیں گے۔ سابقہ فاٹا اور جنوبی پنجاب کے ایک ایک رکن بھی ووٹ دینے کا امکان ہے۔
یہ دونوں آزاد اراکین ہیں، لیکن اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ حکومت نے اہم آئینی ترمیم کے لیے سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس طلب کیے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ دونوں ایوانوں میں نمبر گیم مکمل ہے۔
اس ترمیم کے ذریعے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ متوقع ہے، جس کے نتیجے میں اعلی عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال تک پہنچ جائے گی۔ مزید برآں، چیف جسٹسز کی تعیناتی مدت بھی تین سال ہوگی؛ چیف جسٹس آف پاکستان تین سال کے لیے تعینات کیا جائے گا، اور اگر حاضر سروس چیف جسٹس مستعفی ہو جاتے ہیں تو سنیارٹی کے تحت اگلا جج بھی تین سال کے لیے چیف جسٹس ہوگا۔
حکومت اس اہم آئینی ترمیم کے لیے ایوان زیریں میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے، جس کے لیے ایوان کے 336 ممبران میں سے 224 کی حمایت درکار ہے۔
قومی اسمبلی میں اس وقت 312 ممبران موجود ہیں، جبکہ خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں سمیت 24 نشستیں متنازع یا خالی ہیں۔ حکومتی اراکین کی تعداد 213 ہے، جن میں 111 مسلم لیگ (ن) کے ، 68 پیپلز پارٹی کے، 22 ایم کیو ایم کے ، ق لیگ کے پانچ، استحکام پاکستان پارٹی کے چار، نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ضیاء اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
اپوزیشن اراکین کی تعداد 101 ہے، جن میں سنی اتحاد کونسل کے 80، آزاد اراکین چھ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آٹھ، بی این پی، مجلس وحدت المسلمین اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
رحیم یار خان کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کی کامیابی اور جے یو آئی ف کے ساتھ مل کر حکومتی نمبر 222 تک پہنچ جائے گا، اور صرف دو آزاد اراکین کو توڑنے کی ضرورت ہوگی۔