پاکستان تحریک انصاف کی کارکن اقرا مبارک نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابی نشان کی تبدیلی سے پارٹی کو کوئی نقصان نہیں ہوا، اور انہوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین کے طور پر نامزدگی کی درخواست بھی دی ہے۔
اقرا مبارک نے اپنی درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی ووٹر ہیں اور انہوں نے حامد رضا کو پچھلے انتخابات میں ووٹ اور حمایت فراہم کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ این اے104 میں پی ٹی آئی کی نامزد کردہ امیدوار تھیں۔ ان کے مطابق، پی ٹی آئی کا انتخابی نشان ماضی میں متعدد بار تبدیل ہوتا رہا ہے، لیکن نشان کی اہمیت نہیں، بلکہ پارٹی کی رکنیت زیادہ اہم ہے۔
درخواست گزار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے امیدواروں کو دو مختلف پارٹیوں سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ہدایت دی، جو غیرقانونی ہے۔ اس کے بعد، پی ٹی آئی کے امیدواروں نے آزاد امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔
اقرا مبارک نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے بیان حلفی اور امیدواروں کی فہرست پر توجہ دے، اور سنی اتحاد کونسل کے انٹرا پارٹی انتخابات اور تحریک انصاف کے امیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے بیان حلفی بھی دیکھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ووٹرز نے پی ٹی آئی کے بانی کو ووٹ دیا لیکن 41 امیدواروں نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور بعد میں خود کو آزاد امیدوار ظاہر کیا، جس سے ووٹرز کے ساتھ دھوکہ ہوا۔
اقرا مبارک نے سوال اٹھایا ہے کہ حامد رضا کیا دو پارٹیوں کے رکن ہو سکتے ہیں؟ حامد رضا کے استعفیٰ کے بعد سنی اتحاد کونسل کا چیئرمین کون تھا؟ کیا حامد رضا کا استعفیٰ الیکشن کمیشن کو ملا؟ نئے چیئرمین کے لیے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے؟ سنی اتحاد کونسل نے کتنے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے ہیں؟
درخواست گزار نے مزید کہا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے لیے ایک فہرست فراہم کی تھی، اور یہ ضروری نہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی فہرست ہی تسلیم کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا کوئی بھی چیئرمین انٹر پارٹی انتخابات کے ذریعے منتخب نہیں ہوا، اور سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ عارضی طور پر پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کی اجازت دی جائے۔