پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نے وضاحت کی ہے کہ جنرل فیض حمید نے ذاتی مفادات کے لیے مخصوص سیاسی عناصر کی سرپرستی میں قانونی اور آئینی حدود سے تجاوز کیا۔
پاک فوج کے ترجمان، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس کے دوران دہشت گردی کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات، داخلی سلامتی اور دیگر امور پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
انہوں نے بتایا کہ رواں سال 32,173 مختلف انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے، جبکہ گزشتہ ماہ کے دوران تقریباً 4,000 آپریشنز میں 90 دہشت گرد ہلاک ہوئے، وادی تیراہ میں 37 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا اور 14 زخمی ہوئے۔ 8 ماہ کے دوران، 193 بہادر افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد وں کے خاتمے تک کاروا ئیاں جاری رہیں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے وضاحت کی کہ فوج کا مقصد دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کو صاف کرنا اور عارضی طور پر ان کا کنٹرول سنبھالنا ہے تاکہ ان کی تعمیر نو کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا سکے۔ اس مرحلے کو مکمل کرنے میں بنیادی کردار صوبائی اور مقامی حکومتوں کا ہے، جو وہاں معاشی اور سماجی منصوبے متعارف کروائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام صوبائی اور مقامی انتظامیہ کو دہشت گردی سے پاک علاقوں کا کنٹرول سنبھالنا ہوگا اور سیاسی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو آگے آ کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاک فوج ہمیشہ کی طرح ان کی مکمل معاونت کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاک فوج ایک قومی ادارہ ہے، جس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، نہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت ہے اور نہ ہی مخالف ہے۔ فوج خود احتسابی پر یقین رکھتی ہے، جو شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جو بھی فوج میں غلط کرے گا، اس کا احتساب کیا جائے گا، چاہے وہ کسی بھی رینک کا افسر ہو۔ انہوں نے وضاحت کی کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے کیس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ فوج کس قدر سنجیدہ ہے اور قانون کے مطابق کارروائی کرتی ہے۔ فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے شواہد سامنے آئے، جس پر ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹاپ سٹی کیس میں ریٹائرڈ افسر کے خلاف باضابطہ درخواست موصول ہوئی، اور تحقیقات کے بعد فوج نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا کہ مذکورہ افسر نے پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ فوج دیگر اداروں سے بھی توقع کرتی ہے کہ اگر کوئی اپنے منصب کو ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس کا بھی حساب لیا جائے۔
جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی بنانے میں جنرل باجوہ اور جنرل نوید مختار کے کردار سے متعلق سوال پر ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا براہ راست باس وزیراعظم ہوتا ہے، اور جو شخص بھی اس معاملے میں ملوث ہوگا، چاہے اس کا عہدہ کتنا بھی بڑا ہو، قانون کی گرفت سے باہر نہیں ہوگا۔ فیض حمید کے ذاتی مفادات کے لیے کیے گئے اقدامات پر کارروائی ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) فیض حمید پر الزامات کے بارے میں وضاحت کی کہ فوج الزامات پر یقین نہیں رکھتی، بلکہ ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے۔
اسلام آباد میں تحریک انصاف کے جلسے کی منسوخی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ ایک ضلعی سطح کا معاملہ ہے اور سیکیورٹی فورسز اپنے متعین فرائض انجام دے رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو چاہیے کہ پاکستان پر دہشت گردوں کو ترجیح نہ دے، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اچھے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ جو لوگ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ حقیقت سے بے خبر ہیں۔