سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان (Maulana Fazlur Rehman) نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو ملک کی ترقی کے لیے غیر ضروری سمجھنا سب سے بڑی حماقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں کو بااختیار بنانا ضروری ہے، لیکن آج کل سیاسی لوگوں کی اہمیت کم کی جا رہی ہے اور تجربہ کار رہنماؤں کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگرچہ نئے نوجوان قیادت سنبھالیں گے، مگر ان کے پاس تجربے کی کمی ہوگی اور وہ جذباتی فیصلے کر سکتے ہیں، جس سے مسائل پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو ایک جگہ مرکوز کرنا اور تمام مسائل کو ایک ہی حل سے نمٹنے کی کوشش کرنا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے سی پیک اور دیگر مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت کے علاقے مسلح گروپوں کے قبضے میں ہیں، جہاں ترقیاتی کام نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بعض علاقوں میں سکولوں اور کالجوں میں قومی ترانہ نہیں پڑھا جا سکتا اور قومی پرچم نہیں لہرایا جا سکتا، جو کہ صورت حال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان (Maulana Fazlur Rehman) نے کہا کہ انہوں نے افغانستان میں باہمی تجارت اور افغان مہاجرین پر مذاکرات کیے اور کامیابی کے ساتھ واپس آئے، لیکن ہم ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر مسائل حل نہیں کر سکتے۔
سندھ میں ڈاکوؤں کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے پارلیمنٹ سے درخواست کی کہ وہ آگے بڑھیں اور مسئلے کا حل تلاش کریں۔ جب ریاست ناکام ہو جاتی ہے تو ہم وہاں جا کر حالات کو کنٹرول کرتے ہیں۔
انہوں نے جبری گمشدگیوں کو بھی ایک اہم مسئلہ قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ ان کے پیارے کہاں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، اور موجودہ قوانین کو ایوان میں مسترد کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں ہمیں قدم اٹھانا چاہیے، اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کو بحران سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت کے پاس فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے یا پارلیمان کو مل کر ملک کے اضطراب کو ختم کرنا چاہیے؟ عالمی طاقتیں ہماری پراکسی جنگ سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔