کملا ہیرس اور ٹرمپ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ، مسلم ووٹرز اہمیت اختیار کر گئے۔

امریکا میں صدارتی انتخابات کے دوران حکومتی جماعت ڈیموکریٹس کی کملا ہیرس (Kamala Harris) اور اپوزیشن ریپبلکن کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان سخت مقابلہ جاری ہے۔ دونوں امیدوار اپنی کامیابی کے لیے مسلم ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔

عالمی نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکا میں عرب نژاد امریکی ووٹرز کی تعداد کافی زیادہ ہے، جو ہمیشہ ڈیموکریٹ اور ریپبلکن دونوں پارٹیوں کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔

اس الیکشن میں مسلم ووٹرز فلسطین، لبنان، اور خاص طور پر غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کی وجہ سے ایک منظم قوت بن چکے ہیں، جبکہ ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز میں تذبذب نظر آتا ہے۔

بہت سے مسلم ووٹرز اس بات پر پریشان ہیں کہ کسی بھی امیدوار نے اسرائیلی جارحیت کی واضح مذمت نہیں کی ہے اور نہ ہی غزہ کے عوام سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

کئی مسلم تنظیموں اور گروہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر پولنگ ڈے تک کسی بھی امیدوار نے غزہ کے معاملے میں واضح اقدام نہیں اٹھایا، تو وہ ووٹنگ اسٹیشن جانے کے بجائے گھر میں رہنا پسند کریں گے۔

الجزیرہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے عرب نژاد امریکی لیلیٰ ایلابڈ نے کہا کہ وہ اور دوسرے مسلم ووٹرز غزہ اور لبنان کے شہداء کے ساتھ ہیں۔ ہم مایوس، غمگین، اور ناراض ہیں۔ ہمیں دھوکے کا احساس ہورہا ہے۔

ایک اور ووٹر نے بتایا کہ وہ نہ کملا ہیرس کو ووٹ دیں گے اور نہ ہی ٹرمپ کو، کیوں کہ دونوں نے غزہ پر بمباری کے خاتمے کی کوئی واضح پالیسی نہیں اپنائی۔

لبنانی امریکی یونیورسٹی کی فارغ التحصیل علیسہ حکیم نے کہا کہ انہوں نے پہلے بائیڈن کو ووٹ دیا تھا، مگر غزہ میں ہونے والے مظالم پر ان کے اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔

22 سالہ طالبہ نے “کم برائی کا انتخاب” کے نظریے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے ووٹ کا احترام کرنا چاہیے۔

ڈیئربورن، جس کی آبادی تقریباً 1 لاکھ 10 ہزار ہے، امریکا میں عربوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کے ووٹرز اب تک کملا ہیرس(Kamala Harris) یا ٹرمپ(Trump) میں سے کسی ایک کے انتخاب پر متفق نہیں ہوئے ہیں۔

الجزیرہ نے شہر کے عرب آبادی والے علاقوں میں سروے کیا، جہاں فلسطینی اور لبنانی موضوعات زیادہ زیر بحث ہیں۔ پچھلے انتخابات میں بائیڈن نے عرب علاقوں میں 80 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے، مگر اس بار کملا ہیرس کے لیے چیلنج بڑھتا جارہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پولنگ ڈے پر عرب نژاد امریکی متحرک نہ ہوئے تو کملا ہیرس جو ممکنہ فاتح ہیں، ٹرمپ کے ہاتھوں شکست کھا سکتی ہیں۔

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔