سکولوں میں بڑھتے ہوئے تعلیمی دباؤ (Academic stress) کی وجہ سے طلباء میں ذہنی دباؤ اور جسمانی مسائل، جیسے کہ کمر اور گردن کا درد، میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورت حال کے جواب میں، سندھ میں پرائیویٹ اداروں کے ڈائریکٹوریٹ آف انسپیکشن اینڈ رجسٹریشن کی پروفیسر رفیعہ ملہ نے پرائیویٹ ٹیوشن پر انحصار کم کرنے اور پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیمی معیار (Educational standard) کو بہتر بنانے کے لیے نئی ہدایات جاری کی ہیں۔
سکول کے سربراہوں کو بھیجے گئے ایک خط میں اس نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ بہت سے طلباء 25 سے زائد افراد کے کلاس رومز میں، اسکول سے باہر ٹیوشن سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔ یہ رجحان تشویشناک ہے، خاص طور پر جب اسکول یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود، مزید طلباء دوسری جگہوں پر مدد کی تلاش میں ہیں۔
خط میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ اسکول کے کام کا دباؤ طلباء کو جسمانی سرگرمیوں یا آرام کے لیے بہت کم وقت فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں بے چینی، ڈپریشن اور جسمانی درد بڑھ رہا ہے۔ اس نے سوال کیا کہ اگر اسکول اچھی تعلیم کا دعویٰ کرتے ہیں تو طلباء کو اضافی ٹیوشن کی کیوں ضرورت ہے۔ ٹیوشن سینٹرز اکثر طلباء کی کامیابیوں کا سہرا لیتے ہیں، جس سے اسکول کے اساتذہ کی محنت کی قدر کم ہو جاتی ہے۔
بیرونی ٹیوشن پر انحصار کرنے کے بجائے، اسکولوں کو اپنی حدود میں معاونت کے پروگرام قائم کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مضبوط طلباء کمزوروں کی مدد کر سکتے ہیں، اور اساتذہ اور طلباء کے درمیان تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ کلاس رومز ایسی جگہیں ہونی چاہئیں جہاں طلباء سوالات پوچھنے میں راحت محسوس کریں۔
خط میں اساتذہ کو صبر اور معاونت فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، تاکہ ایک مثبت سیکھنے کا ماحول بنایا جا سکے۔ اسکولوں کو طلباء کی جذباتی اور جسمانی صحت کے ساتھ تعلیمی تقاضوں (Educational requirements) کا توازن قائم کرنا چاہیے، اور وقفے اور جسمانی سرگرمیوں کے لیے وقت فراہم کرنا چاہیے۔