اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان کے ایک بڑے قافلے نے ڈی چوک (PTI Workers at D Chowk) پہنچ کر احتجاج شروع کر دیا، جس پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور شیلنگ کا سہارا لیا۔ بارش کی وجہ سے شیلنگ کا اثر کمزور پڑ گیا، جس کے نتیجے میں مظاہرین کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوا۔
مظاہرین نے ڈی چوک (PTI Workers at D Chowk) پر پہنچنے کے لیے مختلف قافلوں کی صورت میں پیش قدمی کی، جس کے باعث پولیس اور مظاہرین کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں جاری رہیں۔ کچھ مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی، جبکہ پولیس نے جوابی شیلنگ کی، جس کے باعث صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی۔
مظاہرین نے جوابی پتھراؤ کیا، جس سے ماحول مزید تناؤ کا شکار ہو گیا۔ خاص طور پر پتھر گڑھ کٹی پہاڑی پر مظاہرین نے شدید مزاحمت کا مظاہرہ کیا اور رکاوٹوں کو ہٹایا، جس کے بعد قافلے نے ڈی چوک کی طرف پیش قدمی کی۔
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے احتجاج کے دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنا احتجاج ریکارڈ کر لیا ہے اور فائرنگ کے الزامات کے حوالے سے واضح کیا کہ وہ ایک پرامن جماعت ہیں، ہم پر راستے میں پتھر گڑھ کے مقام فائیرنگ کی گی. ہمارا اگلا لائحہ عمل کیا ہو ہوگا اس کا اختیاربانی پی ٹی آئی کے پاس پے.
بارش سے پہلے پاکستان آرمی نے شاہراہ دستورپر پوزیشن سنبھال لی تھی، پی ٹٰی آئی کی کارکن اور پاکستان آرمی آمنے سامنے آگئے تھے، کارکن کافی دیر شدید نارے بازی کرتےرہے.رفتہ رفتہ مظاہرین کی تعداد بڑھنا شروع ہوگئی جس پر آرمی کا مظاہرین کو راستہ دینا پڑا (سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو دیکھی جاسکتی ہیں ).
اسی دوران، علی امین گنڈاپور کا قافلہ خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں داخل ہو گیا، جہاں پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے بھی ان کے ساتھ آ کر ممکنہ گرفتاریوں کی تیاری کی۔ رپورٹ کے مطابق، پولیس نے علی امین گنڈاپور کو گرفتار کرنے کے لیے قیدی وین بھی ساتھ لائی تھی، جس کے بعد ان کی گرفتاری کی خبریں سامنے آئیں۔
یہ احتجاج نہ صرف پی ٹی آئی کی جانب سے ایک سیاسی بیان تھا، بلکہ یہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک اہم موڑ بھی ہے، جہاں جماعتوں کے درمیان تناؤ اور جھڑپیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس واقعے نے ملک کے اندر موجود سیاسی تقسیم اور احتجاجی ثقافت کی گہرائی کو بھی اجاگر کیا ہے۔