سینیٹ کے اجلاس (Senate Session) میں وزراء کی عدم موجودگی پر سخت احتجاج کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایوان میں گرما گرمی دیکھنے میں آئی۔ سینیٹ اجلاس (Senate Session) کی صدارت سیدال خان ناصر نے کی، جہاں سینیٹر سعدیہ عباسی نے وزراء کی غیر موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ایوان کی کارروائی ملتوی کی جائے، کیونکہ وزراء موجود نہیں ہیں۔” سینیٹرز نے سوال اٹھایا کہ وہ ایوان میں کس سے بات کریں گے؟
سینیٹر ثمینہ ممتاز اور فیصل واوڈا نے فلک ناز کی معطلی پر بھی اعتراض کیا، جس پر حکومتی ارکان نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ یاد رہے کہ فلک ناز نے پچھلے اجلاس میں فیصل واوڈا کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کی تھی، جس پر ان کی معطلی ہوئی تھی۔ اس موقع پر سینیٹر شبلی فراز نے معاملے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ڈرامہ ہے، اور اس مسئلے کو قومی اسمبلی کی طرز پر کمیٹی کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے تھا۔
مزید گرما گرمی اُس وقت دیکھنے میں آئی جب وقفۂ سوالات کے دوران سینیٹر شرمیلا فاروقی نے نیشنل واٹر پالیسی میں پانی کے مسائل پر بات چھیڑی اور پانی کے غلط استعمال کا مسئلہ اُٹھایا۔ سینیٹرز نے وزراء کی غیرحاضری پر مزید احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے مطالبہ کیا کہ وزراء کو فوری طور پر حاضر ہونے کی ہدایت دی جائے۔
سینیٹر محسن عزیز نے بھی وزراء کی غیر موجودگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ “روزانہ ایوان میں مذاق بن گیا ہے۔” شبلی فراز نے کہا کہ وزراء کا ایوان میں نہ آنا ایک معمول بن چکا ہے، اور یہ ایوان کو دی جانے والی حکومتی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے۔
ایوان میں احتجاج کے دوران وفاقی وزیر مصدق ملک کی آمد سے وقتی طور پر صورتحال میں نرمی آئی، جنہوں نے اپنی تاخیر پر معذرت کرتے ہوئے وضاحت دی کہ وہ وزارت توانائی کے سوالات کے بعد آفس میں انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے ملک میں گلوبل وارمنگ اور پانی کی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ بھی دی، جس میں بتایا کہ اس سال ملک میں خشک سالی کی کیفیت نہیں ہے، اور دریاؤں سے سمندر میں گرنے والے پانی کی مقدار مطلوبہ سطح سے زیادہ ہے۔