سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز military trials of civilians کے خلاف اپیلوں کی سماعت میں واضح کیا کہ عدالت کا مقصد صرف شواہد اور ٹرائل کے طریقہ کار کا جائزہ لینا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ عدالت نے ملٹری ٹرائل کیسز کا ریکارڈ طلب کیا تھا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ شہادتوں کی بنیاد پر فیصلے کیسے کیے گئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے دورانِ سماعت کہا کہ عدالت پروسیجر کا جائزہ لینا چاہتی ہے تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ کیا فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز military trials of civilians میں فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیچرل جسٹس کے اصولوں کے مطابق کسی کو سنے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی۔
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری ٹرائلز کے دوران مکمل قانونی تقاضے پورے کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر متعلقہ قوانین کے سیکشنز درست قرار دیے گئے تو یہ اپیلیں ناقابلِ سماعت ہو جائیں گی۔ خواجہ حارث نے عدالت کو یقین دلایا کہ ایک کیس کا ریکارڈ جائزے کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ بھی کہا کہ عدالت ٹرائل کے میرٹس پر غور نہیں کر سکتی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز military trials of civilians کے خلاف اپیلوں کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، جب خواجہ حارث مزید دلائل پیش کریں گے۔