خواجہ خواجگان معین الدین فخرِ کون و مکاں معین الدین
سید ثاقب امین چشتی نبیرہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ی ؒ
خالقِ دو جہاں نے تخلیق انسانی فرما کر انسان کو تاج خلافت عطا فرمایا اور اپنی پہچان اور معرفت کو اُن کے لیے محبوب جانا۔ دنیا کو دار لا عمل اور آزمائش کی جگہ بنا کر انسان کو نیکی اور بدی کے مواقع مہیا کیے۔ اگر بدی کے فروغ پر شیطان کار فرما رہا تو خدائے بزرگ و برتر نے ایسے نفوس ِ قدسیہ سے بھی دنیا کو سرفراز فرمایاکہ جنہوں نے نور ہدائت وعرفان کی کما حقہ، تبلیغ فرمائی۔ تا کہ خدائی خدا کی رحمت کے سائے میں جاگزین رہے۔ انبیاء کرام جن کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تک رہا نے اس نور ہدایت کومخلوق تک پہنچایا۔ا سلام دین فطرت ہے۔ اس کی لازوال دولت کو آقائے نامدار تاجدار مدینہ نے اپنی حیات طیبہ ہی میں دینا کے بہت بڑے حصے تک پہنچا دیا۔ آپﷺکے بعد صحابہ ؓ تابعین ؓ تبع تابعین ؓ اور اولیا ے کرام نے اس دولت سرمدی سے ایک عالم کو مالا مال کیا۔ اس طرح اسلام کی متاع بے بہادنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئی۔ چنانچہ اس دولت ابدی سے سر زمین ہندوستا ن کو جن پاکیزہ نفوس نے سر فراز فرمایا ان میں خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری الملقب بہ غریب نواز قبلہ ؒ کی ذات گرامی کا نام نمایا ں ہے۔
حضرت خواجہ خواجگان معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ حسنی حسینی سید ہیں۔ والد کی طرف سے حسنی اور والدہ کی طرف سے حسینی یعنی آپ نجیب الطرفین سید ہیں۔ آپکا تعلق سادات کاظمیہ سے ہے۔ آپ کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے:۔
خواجہ معین الدین بن غیاث االدین بن نجم الدین طاہر بن خواجہ سید عزیز الدین بن سید ابراہیم بن سید ادریس بن امام موسیٰ کاظم ؓبن امام جعفر صادقؓ بن امام محمد باقرؓ بن امام زین العابدین ؓبن امام حسین بن امیرالمومنین حضرت علی ؓ (مناقب الحبیب از خواجہ نجم الدین سلیمانی رحمتہ اللہ)۔
آپ ۴۱ رجب ۷۲۵)بعض کتب میں ۷۳۵بھی درج ہے (کو جنوبی ایران کے علاقے سیتان (خراسان) میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام غیاث الدین حسن تھا۔ جوصاحب ِ ثروت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عابد زاہد انسان بھی تھے۔ اپنا سب کچھ راہ ِ خدا میں وقف کر رکھاتھا اور بے شمار بندگانِ خدا ان سے فیض یاب ہوتے تھے۔ غرباء مساکین کے لیے آپ کے گھر کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ایک صاحب ِ کرامت بزرگ تھے اور ہر طبقہ کے لوگوں میں نہایت عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۲۵۵میں آپ نے وفات پائی۔ ان کا مزار بابِ شام کے نزدیک اب تک مرجع خلائق ہے۔
والدہ ماجدہ کا نام بی بی ماہ نور تھا جو ایک عابدہ وزاہدہ خاتون تھیں۔ نہایت خدا ترس اور مخیر تھیں۔ آپ کی کنیت ام الورح اور لقب خاص الملکہ تھا۔ بی بی ماہِ نور کا وطن اصفہان تھا اور آپ کی نشوو نما خراسان میں ہوئی۔
خواجہ غیاث الدین حسن(والد) کی وفات کے وقت حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی عمر ۵۱ سال تھی۔ مشکل سے ایک سال گزرا ہو گا کہ حضرت بی بی ماہ نور(والدہ) بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ورثے میں آپ کو ایک باغ اور ایک چکی ملی۔ لہذاآپ نے باغبانی کو ذریعہ معاش بنایا۔
ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے باغ کے درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ ادھر سے مشہور بزرگ (مجدوب) حضرت ابراہیم قندوزیؒ کا گزر ہوا۔ آپ نے اُن کو نہایت عزت کے ساتھ درخت کے نیچے بٹھایا۔ انگوروں کا خوشہ پیش کیاا ور ادب سے اُن کے سامنے بیٹھ گئے۔ جاتے ہوئے مجذوب (حضرت ابراہیم قندوزی) نے اپنے پیرہن سے کھلی (سوکھی روٹی) کا ٹکڑا نکالا اور چبا کر حضرت خواجہ صاحب کے منہ میں ڈال دیا۔ اس ٹکڑے کا حلق سے اُترنا تھا کہ آپکے دل کی دنیا بدلی گئی۔ آپ کے باطن میں نور ِ معرفت چمکنے لگا۔ آپ کو ایسامحسوس ہوا جیسے کائنات کی ہر شئے فضول ہے۔چند ہی روز میں آپ نے اپنا باغ اور سامان فروخت کر کے درویشوں میں تقسیم کر دیا اور طلب حق میں عازم سفرہوئے۔
مدت تک آپ سمر قند اور بخارا میں رہے۔ کلام پاک حفظ کیا اور پھر تفسیر، فقہ، حدیث، اور دوسرے علوم ظاہری میں مہارت حاصل کی۔ آپ کے علم ظاہری کے اُستادوں میں مولانا حسام الدین بخاری ؒبھی تھے جن سے آپ نے قرآن کریم حفظ کیا۔
علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ "مرشدِ کامل”کی تلاش میں عراق تشریف لے گئے۔ جب آپ قصبہ ہارون جو نیشا پور کے نواح میں ہے پہنچے تو حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ کی زیارت نصیب ہوئی۔ کچھ عرصہ خدمت میں رہنے کے بعد حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔ چند برس حضرت مرشد کی خدمت میں رہ کر بہت کچھ ریاضت اور محنت ومجاہدہ حسب تربیت خواجہ عثمان قدس اللہ سرہ کے بعد درجہ تکمیل کو پہنچے۔ حضرت مرشد بر حق نے خرقہ خلافت ا پنا مصلے، نعلین، چوبی اور عصا عنایت فرما کر کہا "معین الدین یہ اشیا پیران ِ طریقت کی نشانیاں ہیں اپنے بعد جس کو اہل سمجھودے دینا”۔
پھر سرِ مبارک پر کلاہ چہار ترکی رکھی اور ان کے سامنے اپنے پیر و مرشد حضرت حاجی شریف زندانی کی نصیحت دہرائی کہ:یعنی کلا چہار ترکی سے مراد چار ترک ہیں اول ترکِ دنیا، دوم ترکِ عقبیٰ یعنی ہر وقت اپنی ذا ت کے آخرت کی بھلائی نا طلب کرتا رہے بلکہ سوائے ذاتِ الہی کی رضا کے اور کوئی غرض نہ رکھے، سوم سونے اور کھانے کا ترک کرنامگر صرف اسی قدر کہ جس سے زندگی قائم رہے، خواہشِ نفس کا ترک کرنا یعنی جو نفس کہے اس کے خلاف عمل کرنا اور جو ان چار چیزوں کو ترک کرتا ہے وہی کلا ہ چہار ترکی پہنے کا اہل ہے۔
خرقہ خلافت پانے کے بعد اور ہندوستان تشریف لانے سے پہلے خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے ایک طویل عرصہ تک مختلف بلاد ِ اسلامیہ سیر و سیاحت کی۔ دورانِ سیاحت صدہا اولیا اللہ اور اکابر اُمت سے ملاقات کی۔
جیسا کہ مراہ الاسرار اور سیر اولیاء میں لکھا ہے کہ جس وقت خواجہ عثمانؒ نے جناب غریب نواز خواجہ معین الدین کو خرقہ خلافت بخشا حضرت خواجہ صاحب کی عمر باون (۲۵) سا ل تھی۔ انیس الارواح میں خود حضرت خواجہ نے اپنے بیعت ہونے کا حال لکھا کہ آپ بغداد شریف میں حضرت عثمانؒ سے بیعت ہوئے (ایک روایت کے مطابق بیعت بغداد کی مسجد جنید ؒ میں ہوئی دوسری ہرون میں ہوئی)اور بعد بیعت کئی برس تک مرشد بر حق کی خدمت میں رہ کر خرقہ خلافت حاصل کیا اور ہمیشہ سفر اور حضر میں حضرت مرشد کا بستر سر پر رکھتے تھے۔
حضرت خواجہ صاحب جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم کے حکم پر دین ِ متین کی تبلیغ کے لیے ہندوستان بھیجے گئے آپ کو دربار رسالت سے ”قطب المشائخ“ کا لقب عطا ہوااور سرکار دو عالم ؐ نے آپ کو ہندوستان کا (روحانی)بادشاہ مقرر کیا۔جس ہستی کو آقا ئے دو جہانؐ اپنی نظر کرم سے نوازیں اس کی جلالت و عظمت اور رفعت شان کا کیا ٹھکانا۔یہ سرور کو نین ؐ کا فیضان نظر ہی تھا کہ خواجہ غریب نوازؒ کے بعد کے تمام اولیا ء اور علماء نے آپ کی عظمت اور جلالت کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کیا اور آپ کو بڑے رفیع الشان القاب و خطابات سے یاد کیا۔قطب الاقطاب، معین الحق، ہند الولی، عطاے رسول، نائب النبی، سلطان المشائخ، خواجہ خواجگان، غریب نواز، سلطان الہند وغیرہ۔
حضرت خواجہ معین الدینؒ جب ہندوستان تشریف لائے تو ہندوستان میں کفر اور شرک عام تھا۔ تعصب لوگوں کے خون میں دوڑتا تھا۔ لوگ دیوتاؤں اور بتوں کے خلاف ایک بات سننے کے روادار نہ تھے۔ جادو اور شعبدہ بازی کا راج تھا۔ لوگ جاہل بھی تھے اور سچ جاننے کے لیے رضا مند بھی نہ تھے۔ ایسے میں خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین کا اسلوب دعوت ایسا کمال تھا کہ لوگ کچھ ہی عرصہ میں آپ کی طرف راغب ہوئے۔ اخلاق محمدی کا عملی نمونہ بن کر لوگو ں کے سخت دلوں کو موم کیا اور کئی جادوگروں اور شعبدہ بازوں کو اللہ کی مدد سے ناکام فرمایا۔ آپ سراپا محبت و جمال تھے۔ اس ادائے خاص کو دیکھ کر تمام ہندو اور مسلمان خواجہ بزرگ کو "غریب نواز”سمجھتے تھے۔ ستم رسیدہ لوگوں کو بس ایک ہی نام یادتھا "غریب نواز”۔ ہندوستان کی پوری تاریخ میں غریبوں سے اتنی محبت کرنے والا شایدہی کوئی دوسرا انسان گزرا ہو۔
ہندوستانی عوام کی اس بے پناہ عقیدت کو دیکھتے ہوئے وائسرائے ہند لارڈ کزن نے حکومت ِ برطانیہ کو اپنی رپورٹ میں لکھا کہ "ہندوستان پر آٹھ سو سال سے ایک قبر حکومت کر رہی ہے”۔
مونس الا رواح میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی فر ماتے ہیں کہ میں بیس سال تک خدمت میں حضرت خواجہ بزرگ کے رہا میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ حضرت خواجہ نے کسی کو انکار کیاہو۔ جب آپ کے باورچی خانہ میں کچھ موجود نہ ہوتا اور خادم آکر عرض کرتا تو آپ مصلےٰ اٹھا کر فرماتے کہ اس کے نیچے سے اٹھا لے جس قدر کہ تجھ کو کفایت کرئے آج اور کل کے دن کے واسطے خادم اسی قدر مصلے کے نیچے سے اٹھا لیتا۔ اگر کوئی غریب یا مریض حاضر خدمت ہوتا اس کا مطلب جو کچھ ہوتا تھا آپ حاصل کراتے اور بوقت رخصت اپنے مصلے کے نیچے ہاتھ ڈال کر جو نکلتا اس کو دیتے۔
نقل ہے۔ کہ ایک شخص ظاہر میں ارادہ بیعت کا کر کے خواجہ بزرگ کی خدمت میں آیا اور دل میں قصد خواجہ کی ہلا کت کا رکھتا تھا۔ بغل میں ایک چھری تھی خواجہ بزرگ اس کی طرف بار بار دیکھتے تھے اور مسکراتے تھے پھر آپ نے اس سے فر مایا کہ اے شخص جو آدمی فقیروں کے پاس آیا کرتا ہے یا تو کوئی صحیح نیت سے آتا ہے یا غلط نیت سے پس تو کس نیت سے آیا ہے ان دونوں میں سے ایک اختیار کر جب خواجہ نے یہ بات فر مائی وہ شخص اٹھا اور ارادہ فاسد کا اقرار کیا اور چھری جو بغل میں تھی نکال کر دور پھینک دی اور خالص ارادت کے ساتھ مرید ہوا اور پینتالیس حج اس شخص نے اپنی عمر میں ادا کئے۔
سبع سنابل اور مونس الا رواح میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ بزرگ ہمیشہ باوضو رہتے تھے عموما ًمراقبے میں رہتے تھے جس وقت آپ نظر کھولتے تھے تو جس آدمی پر آپ کی نظر پڑ جاتی تھی وہی شخص واصل باللہ ہو جاتا تھا اور جس فاسق پر آپ کی نظر پڑ جاتی تھی اسی وقت تائب ہو جاتا تھا۔
نقل ہے کہ سات آتش پرست جو کہ اپنے مذہب کے مطابق خوب مجاہدہ کرتے تھے مخلوق جن کی بہت معتقد تھی اور وہ آنے والے وقت کی خبریں دیا کرتے تھے۔وہ لوگ ایک روز حضرت خواجہ کے پاس آئے خواجہ بزرگ کی نظر پڑتے ہی ساتوں شخص خواجہ کے قدموں میں گر پڑے حضرت نے فرمایا اے بے دینو خداکو دیکھتے ہو اور غیر خدا یعنی آگ کو پوجتے ہو۔ عرض کیا کہ ہم آگ سے ڈرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ کل کے روز جب اس سے ہمارا کام پڑے گا تو یہ ہمار ا لحاظ رکھے گی اور ہم کو نہیں جلا ئے گی۔ خواجہ بزرگ نے فر مایا اگر تم خدا کو پوجو تو وہ تمہاری حرمت رکھے گا اور آگ دوزخ میں نہیں جلائے گی۔ ان کفار نے عرض کیا کہ تم جو خدا کو پوجتے ہو اگر تم کو آگ نہ جلائے تو ہم صحیح سمجھیں گئے۔ خواجہ نے فرمایا کہ آگ کو اتنی طاقت نہیں ہے جو ہمارے پا پوش کو بھی جلا دے ہم کو تو وہ جلا ہی نہیں سکتی۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم یہ بات دیکھ لیں تو ایمان لے آئیں گئے خواجہ نے اپنے نعلین مبارک کو آگ میں ڈال دیا اور کہاکہ آگ معین الدین کی پاپوش کو اچھی طرح سے نگاہ رکھ، فورا ًوہ آگ سرد ہو گئی اور غیب سے آواز آئی کہ آگ کی کیا طاقت ہے جو ہمارے دوست کی نعلین کو جلائے جب ان کافروں نے یہ حال دیکھا اسی وقت ایما ن لے آئے اور خواجہ بزرگ کے مرید ہوئے اور خواجہ کی برکت سے وہ ساتوں ولی ہوگئے۔ (مونس الا رواح)۔
سلطان شہاب الدین غوری کو ہندوستان میں آپ کی دُعا سے فتح نصیب ہوئی، جسکے بعد ہندوستان میں اسلام کو تقویت نصیب ہوئی۔ خواجہ صاحب فاتح ہند تھے۔آپ نے تیز شمشیروں کی بجائے حسن و عمل کے نرم و نازک ہتھیاروں سے یہ جنگ لڑی اور کم و بیش نوئے لاکھ لوگوں نے آپ کے دستِ حق پر اسلام قبول کیااور ہندوستان میں مسلمان ایک مصدقہ جمیعت کے طور پر اُبھرے۔ ہندوستان میں اسلام کا آپ سے بڑا داعی اور مبلغ نہ پہلے کوئی تھا اور نہ بعد میں کوئی ہو گا۔ یہ آپ ہی کا فیض ہے کہ آج ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں کروڑوں مسلمان موجود ہیں۔ آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ کے امام اور پیشوا ہیں۔ آپ کا شجرہ طریقت حسب ذیل ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت خواجہ حسن بصریؒ، حضرت خواجہ عبد الواحد بن زیدؒ، حضرت خواجہ فضیل ابن عیاض ؒ، حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادہم بلخیؒ، حضرت خواجہ حدیفہ مرعشی ؒ، حضرت خواجہ ہبیرہ بصری ؒ، حضرت خواجہ ممشاد دینوری ؒ، حضرت خواجہ ابو اسحاق شامیؒ، حضرت خواجہ ابو احمد چشتیؒ، حضرت خواجہ ابو محمد چشتیؒ، حضرت خواجہ ابو یوسف چشتیؒ، حضرت خواجہ قطب الدین مودودچشتیؒ، حضرت خواجہ حاجی شریف زندنیؒ، حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی۔
حضرت خواجہ بزرگ ؒ نے درجہ محبوبی اور حبیبی میں روز دو شنبہ تاریخ چھ(۶) رجب ۳۳۶ہجری کو وصال فرمایا۔ جیسا کہ کتاب سفینتہ الاولیا ء سیرالاولیاء اور اخبار الا خیار، مرات الاسرار، اقتباس الانوار، مداین المعین، سیر الاقطاب، اورسیر العارفین وغیرہ ملفوظات میں لکھا ہے۔ جس وقت آپ کی وفات ہوئی جبینِ اطہر پرھذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ(اللہ کے حبیب کا انتقال اللہ کی محبت میں ہوا) خود بخود خط سبز سے لکھا ہو ا ظاہر ہوا عمر خواجہ غریب نواز کی)۷۹) ستانوے برس کی ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق (۴۰۱)ایک سو چاربرس ہوئی۔
آپ کے بے شمار مرید اور کئی خلفاء ہوئے۔ جن میں سب سے نامور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ ہیں۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ کا فیض خواجہ بختیار کاکیؒ سے بابا فرید ؒ اور پھر نظام الدین محبوب الہی، مخدوم علاؤالدین صابر کلیریؒ سے پھیلا۔ یہ تمام بزرگ اپنی مثال آپ ہوئے۔ ہندوستان کی تاریخ میں یہ آستانے فقط طریقت سے متعلق نہ رہے بلکہ ہر دور میں شریعت مطہرہ کی تعلیمات اور علوم کے پھیلانے میں سر گرم رہے۔ مختلف بادشاہوں کے ہندوستان پر آنے جانے سے اسلام فقط اس لیے محفوظ رہا کہ یہ درویش اسلام کی اصل تعلیمات پر کسی بھی بیرونی اثر کو قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ یہ تمام درویش اپنے وقت کے با کما ل عالم دین ہوئے۔ اکثر کی خانقاہوں پر موجود مدارس آج بھی شریعت مطہرہ کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالی تمام پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
حضرت خواجہ بزرگ کی دو بیبیاں تھیں ایک کا نام بی بی اُمت اللہ جن کے بطن سے ایک صاحبزادی بی بی حافظہ جمال پیدا ہوئیں دوسری بی بی کا نام عصمت اللہ بی بی تھا جن کے بطن سے تین صاحبزادے سید فخرالدین، سید ضیا الدین اور خواجہ حسام الدین پیدا ہوئے۔سید فخرالدین کو حضرت خواجہ نے خلافت بھی دی تھی۔ آج 2025 تک اولادِ خواجہ بزرگ کی باقی اور صحیح النسب موجو د ہے۔
رسومات ِ عرس درگاہ شریف
آپ کا عرس مبارک یکم رجب سے شروع ہو جاتا ہے۔ تمام دنیا کے زائرین اجمیر شریف حاضر ہو کر خواجہ صاحب کے فیضان سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ اجمیر شریف میں بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ کیونکہ لوگ اجمیر شریف حاضر ی کو خدا کی خوشنودی کا سبب سمجھتے ہیں۔ عرس شریف کی تقریبات یکم رجب سے چھ رجب تک منعقد ہوتی ہیں اور قل شریف کا ختم چھ رجب کو منعقدہوتے ہیں۔ اجمیر شریف کا لنگر اور لنگر خانے مشہور ہیں۔ فی زمانہ درگاہ دیوان حضرت سید زین العابدین علی خاں ولد دیوان سید علم الدین علی خاں جو کہ حضرت معین الدین چشتی کی اولاد میں سے ہیں عرس کی تقریبات یعنی محفل سماع، ختم شریف، اور غسل مزار مبارک میں خود شرکت کرتے ہیں۔ آپ صاحب طریقت و متبع شریعت دیوان ہیں یعنی اپنے اسلاف کی نشانی ہیں۔ اللہ تعالی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے فیضان کو مزید عالی فرمائے۔ آمین
۱) ایام عرس شریف کے موقع پر ہر چاند رات سے لے کر ۶ رجب المرجب کی شب تک (مسلسل چھ ۶ شب تک) اپنے جدِ بزرگوار حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزار اقدس کو اپنے دست ِ مبارک سے غسل شریف دینا یہ رسم ہر شب کو ایک بجے کے بعد انجام دی جاتی ہے اور پورے سال میں غسل شریف کے لیے صرف یہی چھ شب مخصوص و مقرر ہیں۔ اس کے علاوہ پورے سال غسل شریف نہیں دیا جاتا۔
(۲) ایام عرس میں چاند رات سے لیکر چھ رجب کی شب تک یعنی مسلسل چھ ۶ شب تک سماع خانہ میں اپنے چشتیہ سلسلہ کی قدیم روایات کو بر قرار رکھتے ہوئے مخصوص محفلوں کا انتظام کرانا، اپنی نگرانی و صدارت میں ادا کرنا یہ وہ محفلیں ہیں جو اپنے جد بزرگوار کے وصال ِ مبارک سے انجام پذیر ہوتی چلی آئی ہیں۔ یہ محفلیں شب میں ۱۱ بجے سیشروع ہو کر صبح فجر سے قبل اختتا م فاتحہ تک چلتی ہیں۔
(۳) ایام عرس شریف میں ۵ رجب المرجب کو دن میں بعد نماز ظہر حضور غریب نواز کی خانقاہ شریف (جو سماع خانہ کی پشت پر واقع ہے) اور جہاں آپ اپنی حیات مبارک میں رہا کرتے تھے اور بعد وصال آپکو غسل شریف بھی اسی جگہ دیا گیا تھا۔ میں مخصوص محفل کا انتظام کر ا کے اس کو اپنی صدارت میں بعد نماز عصر اختتام فاتحہ تک ادا کرنا۔
(۴) ایام عرس شریف کی اختتامی تقریبات کے موقع پر یعنی ۶ رجب المرجب کو دن میں ۱۱ بجے سماع خانہ میں قل کی خاص محفل کا انتظام اور اس رسم کی صدارت کرا کر اختتام فاتحہ کی رسم (جو دن میں ایک بجکر پندرہ منٹ پرانجام پذیر ہوتی ہے) انجام دیکر بعد فاتحہ اپنے جدّ بزرگوار کے مزار اقدس پر مخصوص فاتحہ کی رسم ادا کرنے کے لیے سماع خانہ سے روانہ ہو کر گنبد مبارک میں جنتی دروازہ سے داخل ہو کر مزار ِ اقدس پر حاضری و بعد فاتح رسم عرس کی اختتامی تقریبات کو انجام تک پہنچا کر جملہ زائرین آستانہ حضور غریب نوازکے لیے بار گاہِ الہی میں دست بدعا ہونا۔
خواجہ صاحب کے عرس کے موقع پر تقریباً چھ سے سات لاکھ زائرین دربارپر حاضری دیتے ہیں۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے آستانہ عالیہ کے تین بڑے احاطے ہیں۔ پہلے احاطے میں نقار خانہ عثمانی، نقار خانہ شاہجہانی اور اکبری مسجد ہے۔ دوسرے احاطے میں بلند دروازے کے علاوہ محفل خانہ، حوض شاہی اور کچھ دوسرے حجرے ہیں۔ تیسرے احاطے میں مسجد صندل خانہ اور بہشتی دروازہ، حجرہ بی بی حافظہ جمال اور بابا فرید گنج شکر ؒ کی چلہ گاہ۔حجرہ حور النساء بیگم، مزار خواجہ حسین ناگوری، اولیا مسجد ا ور جامع مسجد شاہجہانی جیسی عمارتیں موجود ہیں۔مزار مبارک کے احاطے میں دو ایسی تاریخی چیزیں ہیں جو ہمیشہ زائرین کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں ایک بڑی دیگ جس میں 120 من میٹھا زردہ پکتا ہے اس کو دیگِ کلاں بھی کہتے ہیں۔ دوسری چھوٹی دیگ جس میں 60من میٹھا زردہ پکتا ہے۔