اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ (Spain Capital Madrid) کی جانب روانہ ہونے والی کشتی کو خوفناک حادثہ پیش آیا، جس میں کم از کم 50 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 44 کا تعلق پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔ یہ المناک واقعہ انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والوں کے لیے ایک اور سنگین مثال بن گیا ہے۔ یہ خبر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں اور حکومتوں کے لیے لمحہ فکر اور تشویش کا باعث بنی ہے۔تارکین وطن کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم "واکنگ بارڈرز” نے تصدیق کی کہ یہ کشتی 2 جنوری کو موریطانیہ کے ساحل سے روانہ ہوئی تھی۔ کشتی میں مجموعی طور پر 86 افراد سوار تھے، جن میں 66 پاکستانی تارکین وطن شامل تھے۔ ان میں سے بیشتر کا خواب اسپین (Spain) پہنچ کر بہتر روزگار کے مواقع حاصل کرنا اور اپنے اہلِ خانہ کو ایک بہتر مستقبل فراہم کرنا تھا۔ کشتی کے حادثے کے بعد مراکش کے حکام نے 36 افراد کو زندہ بچا لیا، تاہم باقی افراد سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے۔ اس حادثے میں ڈوب کر مرنے والوں میں بڑی تعداد ان افراد کی تھی، جو اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر غیر قانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ حادثہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کا غیر قانونی دھندہ آج بھی پوری دنیا میں موجود ہے اور اس کی جڑیں گہری ہیں۔ مافیا کے یہ گروہ غربت، بے روزگاری، اور سیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو خواب دکھاتے ہیں اور انہیں جان لیوا سفر پر مجبور کرتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں، خاص طور پر پنجاب، سندھ، اور خیبر پختونخوا سے بڑی تعداد میں نوجوان غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی اسمگلر ان نوجوانوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ یورپ پہنچنا آسان ہے، لیکن وہ اس سفر کے دوران درپیش خطرات سے آگاہ نہیں کرتے۔ یہ کشتی حادثہ ان خطرات کی ایک دلخراش مثال ہے۔
مغربی افریقہ سے اسپین (Spain) یا دیگر یورپی ممالک تک پہنچنے کے لیے تارکین وطن عام طور پر سمندری راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ راستہ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ چھوٹی، غیر محفوظ کشتیاں گنجائش سے زیادہ بھری ہوتی ہیں اور ان میں اکثر جدید نیویگیشن سسٹم نہیں ہوتا۔ موسمی حالات بھی ان راستوں کو مزید خطرناک بنا دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، ہر سال ہزاروں افراد ایسے خطرناک راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، جن میں سے کئی اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ افراد بہتر زندگی کی تلاش میں اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں، لیکن ان کا یہ خواب اکثر سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو جاتا ہے۔
پاکستان سے بڑی تعداد میں افراد غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس کی کئی وجوہات ہیں. ملک میں غربت اور بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے، جس کے باعث نوجوان روزگار کے بہتر مواقع کے لیے بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تعلیم اور ہنر کی کمی کے باعث کئی افراد مقامی سطح پر ملازمت حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہیں۔سیاسی عدم استحکام اور سماجی مسائل بھی نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔ انسانی اسمگلر اور ان کے نیٹ ورک افراد کو بیرون ملک جانے کے لیے قائل کرتے ہیں، اور وہ انہیں خواب دکھاتے ہیں جنہیں حقیقت کا روپ دینا مشکل ہوتا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے بلکہ حکومتوں اور عالمی برادری کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے. عوام میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ وہ انسانی اسمگلروں کے جال میں نہ پھنسیں۔ لوگوں کو یہ بتانا چاہیے کہ غیر قانونی راستے کتنے خطرناک ہیں اور ان کے نتائج کتنے المناک ہو سکتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرے تاکہ نوجوانوں کو غیر قانونی ہجرت پر مجبور نہ ہونا پڑے۔ تعلیم اور ہنر کے شعبے میں سرمایہ کاری کرکے نوجوانوں کو خود مختار بنایا جا سکتا ہے، تاکہ وہ ملک میں ہی روزگار حاصل کر سکیں حکومت کو انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت قوانین نافذ کرنے چاہئیں اور ان پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے۔ عالمی برادری کو بھی اس مسئلے کے حل کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔ یورپی ممالک کو قانونی طریقوں سے تارکین وطن کو قبول کرنے کے لیے پالیسیز بنانے کی ضرورت ہے۔
حادثے میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کے اہلِ خانہ کے لیے یہ واقعہ ناقابل بیان صدمے کا باعث ہے۔ ان میں سے کئی خاندان اپنے پیاروں کی لاشیں تک حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہ حادثہ ان کے لیے ایک دائمی زخم بن کر رہ جائے گا۔ متاثرہ خاندانوں کے لیے حکومت اور سماجی تنظیموں کو نفسیاتی مدد اور مالی امداد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ المناک واقعہ پوری دنیا کے لیے ایک سبق ہے۔ بہتر مستقبل کی تلاش میں نکلنے والے افراد کو محفوظ اور قانونی راستے فراہم کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مل کر کام کریں تو ایسے حادثات کو روکا جا سکتا ہے۔ مغربی افریقہ سے اسپین (Spain) کی طرف سفر کرنے والی کشتی کا حادثہ انسانی زندگی کی ناقدری اور غیر قانونی ہجرت کے سنگین نتائج کی ایک اور مثال ہے۔ یہ حادثہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بہتر زندگی کی تلاش میں لوگ کس طرح خطرناک راستے اختیار کرتے ہیں، اور اس کا نتیجہ ان کی جان سے ہاتھ دھونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ حکومت، سماجی تنظیموں، اور عالمی برادری کو مل کر ایسے واقعات کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ انسانیت کو ایسے المناک حادثات سے بچایا جا سکے۔