سپریم کورٹ کا کیس مینجمنٹ پلان: انصاف کی بروقت فراہمی کی جانب بڑا قدم
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی (Justice Mohsin Akhtar Kayani) نے مقدمات کے طویل التوا اور فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے کیس کو، جو محض ایک گھنٹے میں نمٹایا جا سکتا تھا، ججز نے 10 سال تک لٹکایا۔ یہ ریمارکس اسلام آباد کے علاقے کرپا میں 10 کنال 16 مرلے زمین کے انتقال سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے گئے۔ انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقدمات کو غیر ضروری التوا میں ڈال کر عدالت اور عوام دونوں کا وقت ضائع کیا گیا۔ کیس میں 150 سے زائد پیشیاں ہو چکی تھیں، جو نظام عدل کی سست روی کو ظاہر کرتی ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی (Justice Mohsin Akhtar Kayani) نے ماضی کے ججز کے کردار پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ بڑے بڑے ججز گزرے، لیکن مقدمات کے زیر التوا رہنے کا مسئلہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔ عوام کو ان تاخیرات کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، جو کسی بھی طرح انصاف کی روح کے مطابق نہیں۔ بعد ازاں، انہوں نے اس کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
یہ کیس اسلام آباد کے موضع کرپا میں زمین کے انتقال کی درستگی سے متعلق تھا، جسے ایڈیشنل جج محمد شبیر بھٹی اور جج ہمایوں دلاور بھی پہلے سن چکے تھے۔
29 اکتوبر 2024 کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس منعقد ہوا، جس میں مقدمات کو بروقت نمٹانے کے لیے کیس مینجمنٹ پلان 2023 کو اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ منصوبہ سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کی ذہن سازی کا نتیجہ تھا، جس میں عدالتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال پر زور دیا گیا۔سپریم کورٹ کی سطح پر بھی مقدمات کے بڑھتے ہوئے بیک لاگ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اجلاس میں تمام سپریم کورٹ کے ججز نے شرکت کی، جن میں بیرون ملک موجود ججز ویڈیو لنک کے ذریعے شامل ہوئے۔ رجسٹرار جزیلہ اسلم نے موجودہ مقدمات کے بوجھ کا جامع جائزہ پیش کیا اور ان کے بروقت حل کے لیے اقدامات کا خاکہ پیش کیا۔ اس منصوبے کا مقصد عدالتی کارکردگی کو مزید مؤثر بنانا اور عوام کو جلد انصاف فراہم کرنا ہے، جو ایک دیرینہ مسئلے کا حل ہے۔