معیشت کی بہتری کے اشارے، ثمرات کہاں؟” مولانا فضل الرحمان کی عوامی تشویش

مولانا فضل الرحمان: سیاست، معیشت اور مدارس پر دو ٹوک مؤقف

مولانا فضل الرحمان (Maulana Fazl ur Rehman) نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے معیشت، سیاست اور مدارس کے حوالے سے کھل کر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ معیشت کی بہتری کے دعوے ابھی صرف اشاروں تک محدود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک روپے کی قدر مضبوط نہیں ہوگی، عام آدمی کو ریلیف نہیں ملے گا۔

تحریک انصاف سے متعلق مولانا نے واضح کیا کہ مذاکرات کے معاملے پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں علم ہی نہیں کہ وہ کس سمت جا رہے ہیں۔

کالا باغ ڈیم اور نئی نہروں سے متعلق سوال پر مولانا نے کہا کہ یہ تمام مسائل قومی اتفاق رائے سے حل ہونے چاہئیں۔ انہوں نے سیاستدانوں کو مشورہ دیا کہ وہ ایک جگہ ٹھہر کر ملک کے نظام کو بہتر کریں۔

مدارس کی رجسٹریشن پر مولانا فضل الرحمان (Maulana Fazl ur Rehman) نے حکومت کے اقدامات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مدارس نہ کبھی سیاسی مداخلت کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے حوالے سے قومی سطح پر قانون سازی ہو چکی ہے، مگر صوبائی حکومتیں قانون سازی میں تاخیر کر رہی ہیں، جس پر فوری عملدرآمد ضروری ہے۔

الیکشن کے شفافیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ آمریت کے دور میں بھی مدتیں پوری کی جاتی رہیں، لیکن یہ الیکشن کی شفافیت کا ثبوت نہیں۔

مدارس بل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے دلچسپ انداز میں کہا کہ خالد مقبول صدیقی، جو وزیر تعلیم ہیں، میرے گھر آکر "زیر تعلیم” ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے اپنے مؤقف کو دوہراتے ہوئے کہا کہ وہ 2018 میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے مخالف تھے اور آج بھی اس پر قائم ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کا واحد نظریہ اقتدار کی گرفت رکھنا ہے، جسے وہ تسلیم نہیں کرتے۔

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔