9 مئی کے واقعات پر عدالت عظمیٰ کی سخت نظرسانی: دہشت گردی یا کچھ اور؟
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 9 مئی کے ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ( Military courts trial) پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ یہ فیصلہ کیسے ہوا کہ کچھ ملزمان کا مقدمہ ملٹری کورٹس میں چلے گا اور کچھ کا انسداد دہشت گردی عدالت میں؟ ان کا کہنا تھا کہ تمام ملزمان کی ایف آئی آرز ایک جیسی تھیں، پھر یہ تفریق کس بنیاد پر کی گئی؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ماضی کے دہشت گردانہ حملوں کی مثال دیتے ہوئے پوچھا کہ ان حملوں کا ٹرائل کہاں ہوا؟ انہوں نے کہا کہ جب ماضی کے تمام کیسز عام عدالتوں میں چلے تو 9 مئی کے ملزمان کو فوجی عدالتوں (Military courts) میں کیوں بھیجا گیا؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے نظام انصاف پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں سے ملزمان بری ہو جاتے ہیں جبکہ فوجی عدالتوں سے سزا ملتی ہے۔ کیا یہ عدالتیں کوئی خاص شواہد پیش کرتی ہیں؟
سماعت کے دوران کلبھوشن یادیو کا تذکرہ بھی ہوا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے بعد کیا کلبھوشن یادیو جیسے جاسوس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ممکن ہوگا؟ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ اس فیصلے کے بعد ملک دشمن جاسوس کا کیس بھی فوجی عدالتوں میں نہیں چل سکتا۔
عدالت نے جیل میں قید مجرمان کے حالات پر بھی سوالات کیے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ قیدیوں کو لان میں وقت گزارنے، کافی پینے اور دیگر سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے حکومتی وکیل کے بیانات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غلط بیانی کی صورت میں جیل اصلاحات کمیٹی سے رپورٹ منگوائی جا سکتی ہے۔
سماعت کے دوران 9 مئی کے سزا یافتہ ملزم حسان نیازی کے والد نے شکایت کی کہ وکالت نامے پر دستخط کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے اس بات کی نفی کی اور کہا کہ وکالت نامے پر کسی کو روکنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی، اور وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل مزید دلائل جاری رکھیں گے۔