پاکستان نے نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (Security Council) کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے اپنی دو سالہ مدت کا آغاز کیا ہے، جو اس کے لیے بین الاقوامی امور پر نمایاں اثر ڈالنے اور اپنے مؤقف کو مضبوط کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔ یہ آٹھویں بار ہے کہ پاکستان کو 15 رکنی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ جنرل اسمبلی کے 193 ممالک میں سے 182 کی حمایت سے پاکستان نے یہ مقام حاصل کیا، جو مطلوبہ دو تہائی اکثریت سے زیادہ ہے۔
اس بار پاکستان نے ایشیا بحرالکاہل کی نشست پر قدم رکھا ہے، اور جولائی میں کونسل کی صدارت کا موقع حاصل کرے گا، جو بین الاقوامی ایجنڈے کے تعین اور مذاکرات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کے علاوہ، پاکستان کو دولت اسلامیہ اور القاعدہ کی پابندیوں کی کمیٹی میں ایک نشست بھی ملی ہے، جو دہشت گردی کے خلاف عملی اقدامات اور ان تنظیموں سے منسلک افراد پر پابندیاں لگانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ یہ پاکستان کے لیے سرحد پار دہشت گردی اور افغانستان سے منسلک گروہوں کی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے کا نادر موقع ہے۔
اگرچہ غیر مستقل ارکان کے پاس ویٹو کا اختیار نہیں ہوتا، لیکن وہ سلامتی کونسل کی مختلف کمیٹیوں میں نمایاں اثر و رسوخ رکھتے ہیں، کیونکہ ان کمیٹیوں کے فیصلے اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں۔ تاہم، عالمی سیاست میں تقسیم اور کونسل کے اندر متضاد ترجیحات اسلام آباد کے لیے اپنی سفارتی ترجیحات کو عملی شکل دینے کا بڑا امتحان ہیں۔
اس وقت سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر فلسطین، مقبوضہ کشمیر، اور شام جیسے تنازعات زدہ علاقوں کی کشیدگی اہم موضوعات میں شامل ہیں۔ پاکستان کی فلسطینیوں کے حق میں دیرینہ حمایت اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے وکالت عالمی سطح پر نمایاں ہو سکتی ہے، لیکن جغرافیائی سیاسی رکاوٹیں ان کوششوں میں پیچیدگی پیدا کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے غزہ میں انسانی بحران کے حل پر زور دیتے ہوئے بلا تعطل انسانی امداد، شہری ہلاکتوں کے احتساب، اور دو ریاستی حل کے لیے اسلام آباد کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے سلامتی کونسل کے اندر اختلافات پر قابو پانے کی مشکلات کو تسلیم کیا، جہاں ویٹو کے اختیارات اکثر اتفاق رائے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
اسی طرح، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی کوششیں بھی چیلنجز کا شکار ہیں۔ منیر اکرم کے مطابق، پاکستان کشمیریوں کی حالت زار کو اجاگر کرتا رہے گا اور عالمی برادری سے مؤثر اقدامات کا مطالبہ جاری رکھے گا، لیکن بھارت کی بڑھتی ہوئی عالمی حیثیت اور اس مسئلے پر بین الاقوامی خاموشی اسلام آباد کی سفارتی کوششوں کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔
علاقائی ترجیحات سے ہٹ کر، شام کے تنازع پر پاکستان کی پوزیشن شام کی خودمختاری اور اقوام متحدہ کی مدد سے سیاسی حل کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم، بڑی طاقتوں کی سیاسی حرکیات کے باعث اسلام آباد کے لیے مثبت نتائج کو یقینی بنانا مشکل ہے۔
پاکستان کا عالمی سطح پر ایک اصولی موقف برقرار رکھنا اور طاقت کی سیاست کے ساتھ توازن قائم رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کے علاوہ، اسلام آباد سلامتی کونسل میں اصلاحات کی وکالت بھی کرتا رہا ہے، جس میں غیر مستقل ارکان کی تعداد میں اضافے کی حمایت اور مستقل ارکان کی تعداد میں اضافے کی مخالفت شامل ہے۔
پاکستان کا سلامتی کونسل (Security Council) میں آٹھواں دور نہ صرف امن اور کثیرالجہتی سفارتکاری کے عزم کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ اسلامی دنیا کی نمائندگی کے لیے بھی اہم ہے۔ او آئی سی کے 5 غیر مستقل ارکان میں سے ایک کے طور پر، پاکستان مسلم دنیا کی آواز بننے کے لیے کوشاں ہے۔
یہ مدت اسلام آباد کے لیے اپنے علاقائی اور عالمی مفادات کو اجاگر کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، لیکن تقسیم شدہ کونسل اور بڑی طاقتوں کے متضاد مفادات کی وجہ سے یہ سفر آسان نہیں ہوگا۔ اس کامیابی کا انحصار پاکستان کی سفارتی حکمت عملی اور بین الاقوامی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی صلاحیت پر ہوگا۔