صدر مملکت آصف علی زرداری نے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 2024 پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس قانون کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن (Registration of Religious Schools) سوسائٹی ایکٹ کے مطابق ہوگی۔ صدر کے دستخطوں کے بعد قومی اسمبلی نے اس قانون کو باضابطہ طور پر منظور کر لیا ہے اور جلد ہی گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے گا۔
مدارس رجسٹریشن کے ترمیمی بل کو اکتوبر میں پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا، لیکن صدر مملکت نے اسے اعتراضات لگا کر واپس بھیج دیا تھا۔ صدر آصف علی زرداری نے اس اعتراض میں کہا تھا کہ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹوری ٹرسٹ ایکٹ 2020 کے موجودہ قوانین کے تحت نئی قانون سازی غیر ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے بل میں مدارس کی تعلیم کو شامل کرنے سے 1860 کے ایکٹ کے بنیادی اصولوں کے ساتھ تضاد پیدا ہو سکتا ہے، اور اس سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
تاہم، بعد ازاں سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ دینی مدارس رجسٹریشن (Registration of Religious Schools) ایکٹ کا مسئلہ 26 ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں حل کر لیا گیا ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے ساتھ مشاورت کے بعد مسودے کو حتمی شکل دی گئی، اور اب یہ معاملہ مکمل طور پر طے پا چکا ہے۔ اس ترمیم کے تحت وزارت تعلیم یا سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے ذریعے مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی، جس سے مدارس کے تمام دھڑوں کے مطالبات پورے ہو جائیں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی توقع ظاہر کی تھی کہ صدر مملکت جلد ہی آرڈیننس کی منظوری دے دیں گے، جس کے بعد باضابطہ گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہوگا۔ جب یہ نوٹیفیکیشن جاری ہو گا، تو اس کے بعد مدارس کی رجسٹریشن کا عمل باقاعدہ شروع ہو جائے گا۔
دینی مدارس کے تحفظ کے حوالے سے جے یو آئی (جمعیت علمائے اسلام) نے اس پیش رفت پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان جے یو آئی نے قوم، کارکنان اور مدارس کے اتحاد تنظیمات کے اکابرین کو مبارکباد دی اور کہا کہ اللہ کریم نے ان کی جدوجہد کو کامیاب کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی ہمیشہ دینی مدارس کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی، اور مدارس دینیہ اسلام کے قلعے اور پاکستان کے نظریاتی جغرافیے کے محافظ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ علماء کا اتحاد دینی اداروں کے تحفظ کے لیے انتہائی اہم ہے، اور مدارس کے خلاف ہر سازش ناکام بنائیں گے۔ مدارس کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا