تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو نہ صرف افراد کو بااختیار بناتا ہے بلکہ ملک کو مضبوط اور ترقی یافتہ بناتا ہے۔ پاکستان کی تعلیمی تاریخ میں "ایک قوم، ایک نصاب” (One Nation One Curriculum) ایک اہم نعرہ اور منصوبہ بن کر سامنے آیا، جس کا مقصد ملک بھر میں تعلیمی معیار کو یکساں بنانا تھا۔ لیکن اس منصوبے کے پیچھے کیا حقیقت چھپی ہے؟ کیا یہ واقعی ایک مثبت اصلاح ہے، یا محض ایک سیاسی نعرہ؟
پاکستان کا تعلیمی منظرنامہ
پاکستان کا تعلیمی نظام طویل عرصے سے مختلف مسائل کا شکار رہا ہے۔ ملک میں مختلف قسم کے تعلیمی نظام موجود ہیں، جن میں سرکاری اسکول، نجی اسکول، مدرسے، اور کیمبرج یا او لیول کے ادارے شامل ہیں۔ یہ تنوع نہ صرف تعلیمی معیار میں فرق پیدا کرتا ہے بلکہ سماجی ناہمواری کو بھی بڑھاتا ہے۔
پاکستان میں تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا تقریباً 2.2 فیصد ہے، جو کہ دنیا کے بہت سے ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ UNESCO کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں تقریباً 22.8 ملین بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، جو کہ دنیا میں دوسرا سب سے بڑا تناسب ہے۔
ایک قوم، ایک نصاب: مقصد اور وژن
2020 میں، "ایک قوم، ایک نصاب” "ایک قوم، ایک نصاب” (One Nation One Curriculum) کے منصوبے کو متعارف کرایا گیا۔ اس منصوبے کا مقصد پورے ملک میں یکساں نصاب کا نفاذ تھا تاکہ تمام طلباء کو برابر مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ اس منصوبے کو خاص طور پر ڈاکٹر ثانیہ نشتر جیسے ماہرین کی حمایت حاصل تھی، جو پاکستان میں سماجی تحفظ اور اصلاحات کے حوالے سے مشہور ہیں۔
منصوبے کے اہم نکات میں شامل تھے:
1. تمام تعلیمی اداروں میں ایک جیسے مضامین اور نصاب کا نفاذ۔
2. اسلامیات اور قومی تاریخ کو نصاب کا لازمی حصہ بنانا۔
3. مادری زبانوں کو ابتدائی تعلیم کا ذریعہ بنانا۔
4. جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم کو فروغ دینا۔
حقیقت یا سراب؟
"ایک قوم، ایک نصاب” ایک اچھا وژن ہے، لیکن اس کے نفاذ کے دوران کئی چیلنجز اور مسائل سامنے آئے۔
1. معیار کی یکسانیت
پاکستان کے تعلیمی ادارے معیار کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں سہولیات کی کمی، اساتذہ کی تربیت کی کمی، اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی نہ ہونا ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ دوسری طرف، نجی اسکولوں اور بین الاقوامی نظامِ تعلیم میں طلباء کو جدید سہولیات اور معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔
2. زبان کا مسئلہ
منصوبے کے تحت مادری زبان کو ابتدائی تعلیم کا ذریعہ بنایا گیا، لیکن پاکستان میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، اور بلوچی شامل ہیں۔ یہ فیصلہ والدین اور اساتذہ کے لیے کنفیوژن کا باعث بنا۔
3. مدرسہ اصلاحات
مدارس کو ایک ہی نصاب میں شامل کرنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ مدارس کے ذمہ داران نے نصاب کے بعض حصوں پر اعتراض کیا اور ان کے تحفظات کو مکمل طور پر دور نہیں کیا جا سکا۔
4. عملی مشکلات
"ایک قوم، ایک نصاب” کے نفاذ کے لیے بھاری بجٹ کی ضرورت تھی، جو موجودہ وسائل کے ساتھ ممکن نہیں تھا۔ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیے بغیر اس منصوبے کو مکمل طور پر نافذ کرنا ایک ناممکن کام تھا۔
حقائق اور اعداد و شمار
شرح خواندگی: پاکستان کی شرح خواندگی 62.3 فیصد ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔
سرکاری اسکولوں کی حالت: ملک کے تقریباً 50 فیصد سرکاری اسکولوں میں پینے کے صاف پانی، بجلی، اور بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں۔
اساتذہ کی تربیت: پاکستان میں صرف 45 فیصد اساتذہ کو جدید تربیت فراہم کی گئی ہے۔
نصاب کی پیچیدگیاں: نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے 2023 میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی گئی، لیکن اس کے نتائج اب تک سامنے نہیں آئے۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا کردار
ڈاکٹر ثانیہ نشتر، جو احساس پروگرام اور سماجی بہبود کے حوالے سے مشہور ہیں، نے اس منصوبے کی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیم میں مساوات لانے کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ لیکن ان کی کوششوں کو بھی سیاسی دباؤ اور وسائل کی کمی کی وجہ سے مطلوبہ کامیابی نہیں مل سکی۔
کیا یہ ممکن ہے؟
پاکستان جیسے ملک میں جہاں تعلیمی نظام کو سالوں سے نظرانداز کیا گیا ہے، وہاں "ایک قوم، ایک نصاب” جیسے منصوبے کا نفاذ ایک طویل المدتی کام ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے:
1. تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ۔
2. اساتذہ کی تربیت اور مراعات کی فراہمی۔
3. نجی اور سرکاری اداروں کے درمیان فرق کو ختم کرنا۔
4. نصاب کو عالمی معیار کے مطابق بنانا۔
اختتامیہ
"ایک قوم، ایک نصاب” ایک خواب ہے جسے حقیقت میں تبدیل کرنا ممکن ہے، لیکن اس کے لیے خلوص نیت، مستحکم وسائل، اور ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں، یہ منصوبہ زیادہ تر ایک سیاسی نعرے کی شکل میں ہی نظر آتا ہے۔ پاکستان کو تعلیم کے شعبے میں حقیقی اصلاحات کی ضرورت ہے، جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔