ہنر مند افراد (Skilled people) ہر معاشرے کی اہم ضرورت ہوتے ہیں، جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو "مفت کھانا کھائیں” جیسے بینرز کثرت سے نظر آتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے یہ دل کو خوش کرتے ہیں کہ کوئی ضرورت مند انسان بھوک سے نہیں مرے گا۔ لیکن اگر گہرائی سے سوچا جائے تو یہ بینرز ایک سوال پیدا کرتے ہیں: آخر کیوں ہماری قوم کو محض کھانے پر اکتفا کرایا جا رہا ہے؟ کیوں کوئی ایسا بینر نظر نہیں آتا جس پر لکھا ہو:
"مفت ویلڈنگ سیکھیں”، "مفت پلمبرنگ سیکھیں”، "مفت گاڑی مستری بنیں”، "مفت کمپیوٹر سیکھیں”
یہ سوال ہمیں ایک تلخ حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔ خیرات کے نام پر ہم اپنی قوم کو نکما، بے عمل اور بھکاری بنا رہے ہیں۔ جہاں معاشرے کو ترقی کی جانب لے جانے کے لیے ہنر مند افراد (Skilled people) کی ضرورت ہے، وہیں ہم صرف وقتی امداد دے کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔
خیرات یا خودکفالت؟
خیرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انسانیت کی معراج ہے۔ لیکن خیرات کا یہ تصور کب بھکاری کلچر میں تبدیل ہو گیا؟ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان عام ہو چکا ہے کہ کسی کو مچھلی دے دی جاتی ہے، لیکن مچھلی پکڑنے کا ہنر نہیں سکھایا جاتا۔
دو دیگوں کی لاگت سے اگر ایک ویلڈنگ مشین خریدی جائے اور ساتھ ہی ایک استاد کی خدمات لی جائیں، تو نہ صرف ضرورت مند فرد کو ہنر سکھایا جا سکتا ہے بلکہ ایک مستقل ذریعہ معاش بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ خیرات کا مقصد محض کسی کی فوری ضروریات پوری کرنا نہیں بلکہ اسے خودکفیل بنانا ہونا چاہیے۔
اسلامی تعلیمات: خودداری کی ترغیب
اسلام کی تعلیمات میں محض بھیک دینے کے بجائے محنت اور خودداری کو ترجیح دی گئی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی سنت سے ہمیں یہ واضح سبق ملتا ہے۔ ایک موقع پر ایک شخص نے آپ ﷺ سے مدد طلب کی، تو آپ نے اسے کلہاڑا لے کر دیا اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچنے کا مشورہ دیا۔ آپ ﷺ نے صرف اس کی مدد نہیں کی بلکہ اسے ایک ہنر دیا جس سے وہ زندگی بھر عزت کے ساتھ روزی کماتا رہا۔
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کسی کی مدد کرنے کا سب سے بہترین طریقہ اسے خودمختاری کی راہ پر ڈالنا ہے۔ اگر ہم اس سنت کو اپنائیں تو ہمارا معاشرہ خود کفیل اور مضبوط ہو سکتا ہے۔
معاشرتی زوال: بھکاری کلچر کا فروغ
یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھکاری کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ ہر چوراہے پر بھیک مانگنے والے نظر آتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں بلکہ خیراتی ادارے بھی اس مسئلے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر کھانے کے اہتمام کیے جاتے ہیں، لیکن ہنر سکھانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
امدادی پروگرامز کے ذریعے لوگوں کو خودمختاری کے بجائے محتاجی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف ہمارے افراد کو نکما بنا رہا ہے بلکہ قوم کی مجموعی ترقی میں بھی رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
ہنر مند قوم کی اہمیت
ایک ہنر مند قوم ہی ترقی کی ضمانت دیتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں:
جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنے افراد کو ہنر مند بنانے پر توجہ دی، جس کا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے۔
چین نے اپنی افرادی قوت کو ٹیکنیکل مہارتیں فراہم کیں اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔
ہمارے ملک میں بھی یہی ماڈل اپنایا جا سکتا ہے۔ اگر ہر خیراتی ادارہ کم از کم ایک ہنر سکھانے کا منصوبہ بنائے تو ہم لاکھوں لوگوں کو خودمختار بنا سکتے ہیں۔
عملی اقدامات: خودکفالت کے منصوبے
1. ہنر سکھانے والے مراکز کا قیام:
ویلڈنگ، پلمبرنگ، درزی، اور کمپیوٹر جیسے ہنر سکھانے والے مراکز قائم کیے جائیں۔
ہر مرکز میں مفت تربیت کے ساتھ آلات فراہم کیے جائیں تاکہ لوگ اپنی روزی خود کما سکیں۔
2. مائیکروفنانس منصوبے:
کم لاگت پر قرضے فراہم کیے جائیں تاکہ لوگ اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔
قرضوں کی ادائیگی آسان اقساط میں ہو، تاکہ یہ بوجھ نہ بنے۔
3. تعلیمی نظام میں تبدیلی:
اسکول اور کالجز میں ہنر سکھانے کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
صرف ڈگریاں دینے کے بجائے عملی تربیت دی جائے۔
4. شراکت داری:
حکومتی اور نجی ادارے مل کر ہنر سکھانے کے منصوبے شروع کریں۔
بڑے ادارے اپنے CSR (کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی) کے تحت ہنر مند افراد کی تربیت میں سرمایہ کاری کریں۔
خیرات کے مثبت پہلو
یہ بات بھی اہم ہے کہ خیرات کا مکمل انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کسی ضرورت مند کو فوری مدد فراہم کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لیکن خیرات کے ذریعے مستقل خودکفالت کے منصوبے بنانا زیادہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
قوم کی تعمیر: آپ کا کردار
ہر فرد اپنے طور پر قوم کی تعمیر میں حصہ ڈال سکتا ہے:
اگر آپ کے پاس مالی وسائل ہیں تو کسی ضرورت مند کو ہنر سکھائیں۔
اگر آپ کے پاس علم ہے تو دوسروں کو سکھائیں۔
اگر آپ کسی ادارے سے وابستہ ہیں تو ہنر مند تربیت کے پروگرام شروع کریں۔
اختتامیہ: سوچ کے نئے زاویے
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ خیرات وقتی امداد فراہم کرتی ہے، لیکن ہنر سکھانا دائمی خوشحالی کی بنیاد ہے۔ قوم کو بھکاری بنانے کے بجائے ہنر مند بنانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔
سوچیے!
ایک دیگ کا خرچ کتنی زندگیاں بدل سکتا ہے؟ ایک ویلڈنگ مشین، ایک استاد، اور ایک ہفتہ کی تربیت کسی کو زندگی بھر کے لیے خودمختار بنا سکتا ہے۔ ہمیں بھکاری کلچر کو ختم کرکے خودکفالت کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا، تبھی ہم ایک مضبوط، خوددار اور ترقی یافتہ قوم بن سکیں گے۔