2 صوبے زرعی ٹیکس نافذ کر چکے، ایف بی آرپہلی ششماہی میں 384 ارب روپے کا شارٹ فال-

زرعی ٹیکس 2 صوبے نافذ کر چکے ہیں، 2 سے بات چیت جاری ہے، آئی ایم ایف سے بھی بات کر رہے ہیں، وزیر خزانہ
وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ زرعی ٹیکس Agriculture tax دو صوبے نافذ کر چکے ہیں، جبکہ دو صوبوں کے ساتھ اس پر بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ اس سلسلے میں مسلسل رابطے میں ہے اور کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت ان کی مشاورت کو مدنظر رکھا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی وضاحت کی کہ حکومت زرعی ٹیکس کے معاملے پر آئی ایم ایف سے کسی قسم کی رعایت نہیں مانگے گی، کیونکہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے شفاف اور جامع ٹیکس اصلاحات ضروری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری ملازمین کی طرف سے اثاچہ جات کی تفصیل جمع کروانے کا عمل بھی جاری ہے، جس سے ٹیکس وصولی کے عمل میں مزید بہتری آئے گی۔

قبل ازیں سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ومحصولات کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ زرعی ٹیکس Agriculture tax کے نفاذ کے حوالے سے صوبوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ٹیکس نظام میں اصلاحات کے عمل کو تیز کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک کی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس فارم کو آسان بنانے کی کوششیں کی ہیں اور کسٹمز میں فیس لیس سسٹم متعارف کرانے جیسے اقدامات کیے ہیں تاکہ شفافیت بڑھائی جا سکے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ حکومت کا ارادہ ہے کہ آئندہ مالی سال میں ٹیکس پالیسی کو ایف بی آر سے الگ کر کے ایک آزاد ادارہ قائم کیا جائے تاکہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔

اجلاس میں سینیٹر شیری رحمان کی جانب سے کاربن ٹیکس متعارف کرانے کی تجویز پر بھی بحث کی گئی، تاہم سینیٹر فاروق ایچ نائیک اور دیگر ارکان نے اس تجویز پر تحفظات کا اظہار کیا، خاص طور پر اس بات پر کہ کاربن ٹیکس غریب طبقے پر مزید بوجھ ڈال سکتا ہے۔ اجلاس میں ایف بی آر کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا، جہاں بتایا گیا کہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں ایف بی آر کو 384 ارب روپے کے ریونیوشارٹ فال کا سامنا رہا، اور ایف بی آر نے 5624 ارب روپے محصولات جمع کیے ہیں جو کہ ہدف 6008 ارب روپے سے کم ہیں۔ اس دوران مالیاتی پالیسیوں، ایف بی آر کی کارکردگی اور خریداری کے طریقہ کار پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

زرعی ٹیکس کے حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ زرعی ٹیکس کے نفاذ سے نہ صرف ملکی معیشت میں استحکام آئے بلکہ زرعی شعبے میں بھی ترقی کی راہیں ہموار ہوں۔

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔