سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے قرار دیا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں ہوئی، جس میں دیگر تمام مقدمات کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے صرف فوجی عدالتوں سے متعلق کیس پر توجہ دی گئی۔
فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل پر سوالات
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ہر شخص کو اس کے دائرہ کار میں لایا جا سکتا ہے؟ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے قبل بنایا گیا تھا، جس پر وکیل دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ عدالتی فیصلوں میں نقائص موجود ہیں۔
عدالت میں 9 مئی کے واقعات کی تفصیلات طلب
عدالت نے وزارت دفاع کو 9 مئی کے واقعات سے متعلق مکمل تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت دی، جس میں کور کمانڈر ہاؤس کے معاملے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کالعدم دفعات کے تحت ہونے والے ٹرائلز کا مستقبل کیا ہوگا؟
فوجی عدالتوں کے فیصلے اور سزا کا اختیار
وکیل دفاع اعتزاز احسن نے اعتراض کیا کہ فوجی عدالتوں میں دی گئی سزاؤں کی حتمی منظوری آرمی چیف دیتے ہیں، جبکہ وہ ٹرائل کا حصہ نہیں ہوتے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ سزا سنانے کے بعد ملزمان کو سول عدالتوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے اور وہ اپیل کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔
فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر عدالتی حکم
عدالت نے حکم دیا کہ جن ملزمان کو رعایت دی جا سکتی ہے، انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ دیگر ملزمان کو سزا کے بعد جیلوں میں منتقل کیا جائے اور وہ اپنے کیسز سول عدالتوں میں چلا سکتے ہیں۔
آئندہ سماعت جنوری میں متوقع
سپریم کورٹ نے سماعت کو موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کر دیا۔ جسٹس امین الدین خان نے امید ظاہر کی کہ جنوری میں اس مقدمے کو مکمل کیا جائے گا، جس کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کے مقدمے کو بھی سنا جائے گا۔