چشتی صابری مشایخ کے اہم تذکروں کا اِجمالی جائزہ

سید عثمان وجاہت صابری
Syed Usman Wajahat

سلسلۂ چشتیہ حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر کے دو خلفا کے ذریعے بامِ عروج کو پہنچا، اس کے ابتدائی دور میں حضرت نظام الدین محبوب الٰہی دہلی میں اپنی مسند آراستہ کرکے دست بیعت دراز فرمایا، عوام و خواص بہ شمول اہل تخت آپ کے گرویدہ ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب سلسلۂ چشتیہ صابریہ (Chishtia Sabria) جاری تو تھا، لیکن عوام تک رسائی نہ تھی، اور کوئی مستقل خانقاہ بھی نہ تھی، بہ قول خلیق احمد نظامی صاحب:

سلسلہ چشتیہ کا یہ دورِ اول حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی (متوفی ۷۵۷ھ) پر ختم ہوگیا، ایسے دور میں چشتیہ صابریہ (Chishtia Sabria) سلسلے کا پہلا مرکز جس کو ہم تاریخ کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں وہ ردولی (ضلع فیض آباد) ہے، شیخ احمد عبد الحق نے ایسے زمانے میں وہاں اپنی خانقاہ قائم کی جب چشتیہ سلسلہ کامرکزی نظام ختم ہوچکا تھا۔ نظامیہ سلسلے کے بزرگ گجرات، دکن، بنگال وغیرہ میں اپنی خانقاہیں قائم کررہے تھے۔ دہلی اور اس کے ارد گرد کا تمام علاقہ چشتیہ سلسلہ کے بزرگوں سے تقریباً خالی تھا۔ اس زمانہ میں ردولی میں شیخ احمد عبد الحق کی خانقاہ رشد وہدایت کا بڑا مرکز بن گئی، اور شمالی ہندوستان کے لوگ کثرت سے حاضر ہونے لگے۔‘‘ (تاریخ مشایخ چشت: خلیق احمد نظامی، ص ۲۳۴)

شیخ احمد عبد الحق ردولوی چشتی صابری کا وصال ۸۳۷ھ میں ہوا۔ شیخ کی خانقاہ سلسلۂ صابریہ کی پہلی باقاعدہ خانقاہ بنی، اور اس خانقاہ سے شیخ عبد القدوس گنگوہی جیسے عارف اور شہبازِ طریقت بھی فیض یاب ہوئے۔ ’’تاریخ مشایخ چشت‘‘ میں لکھا ہے:
’’(حضرت عبد القدوس گنگوہی) سلسلۂ صابریہ کے وہ پہلے بزرگ ہیں جن کے حالات معاصر تذکروں اور تاریخوں میں ملتے ہیں، حضرت گنگوہی کو سلسلۂ صابریہ میں جو شہرت نصیب ہوئی کسی اور کو نہ ہوئی۔‘‘
(تاریخ مشایخ چشت: خلیق احمد نظامی، ص۲۳۵)

آپ کے ملفوظات جو آپ کے صاحب زادے حضرت شیخ رکن الدین نے جمع کیے وہ اس سلسلے کے اوّلین ملفوظات ہیں، آپ کے مکتوبات شریفہ بھی سلسلۂ صابریہ میں تاریخی ہیں۔ آپ کے سلسلہ میں شیخ رکن الدین، شیخ جلال الدین تھانیسری اور شیخ عبد الاحد (والد گرامی حضرت مجدد الف ثانی) جیسے حضرات شامل ہوئے۔ حضرت مجدد نے پہلی بیعت اپنے والد سے سلسلۂ چشتیہ میں ہی کی تھی، اور پہلی خلافت بھی حضرت کو سلسلۂ چشتیہ صابریہ قدوسیہ کی ہی ملی۔ حضرت قطب عالم گنگوہی نے قصبہ گنگوہ ضلع سہارن پور میں ۱۵۳۷ء میں وصال فرمایا۔

حضرت جلال الدین تھانیسری کے خلیفہ نظام الدین بلخی ہوئے، جو ہندوستان سے بلخ چلے گئے تھے، کمال درجہ کے درویش اور عالم دین تھے، آپ کے خلفا میں شیخ ابوسعید گنگوہی (نبیرۂ قطب عالم) معروف ہیں، جنھوں نے بلخ سے گنگوہ واپس آکر مسند ارشاد کو رونق بخشی۔ حضرت نظام الدین بلخی اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں کہ ان کے خلیفہ سیّد غواص ترمذی (متوفی ۱۰۴۰ھ)، حاجی عبد الکریم لاہوری (۱۰۴۵ھ) اور شیخ جان اللہ لاہوری (متوفی ۱۰۳۹ھ) پشاور اور لاہور میں سلسلۂ چشتیہ کے فروغ کے لیے کام کررہے تھے۔ یاد رہے کہ سلسلۂ چشتیہ نظامیہ (بہ مطابق خلیق نظامی) موجودہ پنجاب میں خواجہ نور محمد مہاروی کی تشریف آوری کے بعد باقاعدہ جاری ہوا۔ خواجہ مہاروی ۱۱۴۲ھ میں پیدا ہوئے، یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ صابری مشایخ پنجاب میں حضرت مہاروی کی پیدائش سے ڈیڑھ صد سال قبل اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ بزرگ نظامی ہوں کہ صابری تمام ہی چشتی تعلیمات اور اکابر سے فیض یافتہ ہیں۔

سلسلۂ عالیہ صابریہ میں آنے والے ادوار میں بہت باکمال شخصیات ہوئیں، جنھوں نے مختلف علاقوں میں سلسلہ کی تعلیمات کو عام کیا۔ الٰہ آباد میں حضرت شیخ محب اللہ الٰہ آبادی، انبیٹھہ میں حضرت شاہ ابو المعالی، کہڑام ضلع پٹیالہ میں حضرت سیّد محمد سعید معروف بہ میراں بھیکھ، رام پور اور مرادآباد میں شاہ فقیر، ملا اخوند، حافظ علی حسین، سیّد محمد حسین مرادآبادی، شاہ محمد حسن صابری معشوقِ الٰہی، انبالہ میں حافظ موسیٰ مانک پوری، حیدرآباددکن میں حضرت شاہ خاموش، امروہہ میں شاہ عبد الباری، شاہ عضد الدین، سیّد امانت علی امروہوی اور تھانہ بھون میں حاجی اِمداد اللہ مہاجر مکی جیسی شخصیات نے سلسلۂ صابریہ کو فروغ دیا۔ ان تمام حضرات کے بے شمار خلفا ہوئے، ان سے کئی سو خانقاہیں ہندوستان پاکستان میں اس وقت موجود ہیں۔
سلسلۂ عالیہ چشتیہ صابریہ کے متقدمین ومتاخرین مشایخ اکابر کے جو تذکرے تالیف ہوئے، اور جن تک ہماری رسائی یا فقط ان کے بارے علم ہے ان کا مختصر تعارف ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

۱-سیر الاقطاب
شیخ الہدیہ (اللہ دیا) کی تالیف ہے۔ آپ حضرت جلال الدین کبیرالاولیا پانی پتی چشتی صابری کی اولاد سے تھے۔ گیارھویں صدی ہجری کے چشتی سلسلہ کے صوفی اور تذکرۂ ہذا کے مؤلف کی حیثیت سے معروف ہیں۔
’’سیرالاقطاب‘‘ مشایخ چشتیہ صابریہ کا تذکرہ ہے۔ مؤلف نے اپنے شجرۂ طریقت کے اصحاب کا تذکرہ لکھا ہے، لیکن اسے موجودہ تذکروں میں اہم مقام حاصل ہے۔ یہ ۱۰۳۲ھ/ ۱۶۲۶ء سے ۱۰۵۲ھ / ۱۶۴۶ء کے درمیان مکمل کیا گیا۔ اصل کتاب فارسی زبان میں ہے۔ اردو میں اس کے دو مختلف ترجمے طبع ہوچکے ہیں:

۱- ترجمہ از: پروفیسر معین الدین دردائی (علیگ)، نفیس اکیڈمی، کراچی
۲- ترجمہ از: سیّد محمد علی جویاؔ مرادآبادی، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس (یہ ترجمہ ۱۸۷۷ء میں لکھنؤ سے بھی شائع ہوا تھا)

۲-مرآۃ الاسرار
شیخ عبد الرحمن چشتی کی تالیف اور ہندوستان میں تحریر کیے جانے والے مشایخ کے مفصل اور اولین تذکروں میں سے ایک ہے۔ اس میں تقریباً تمام سلاسل کا ذکر ہے۔ مشایخ چشتیہ صابریہ کا تذکرہ بھی حضرت شیخ دائود گنگوہی تک موجود ہے۔ شیخ دائود گنگوہی اس کی تالیف کے وقت زندہ تھے۔ مؤلف نے اس کتاب کو ۱۰۴۵ھ سے ۱۰۶۵ھ کے درمیان میں مکمل کیا۔ صاحب ’’مرآۃ الاسرار‘‘ کی حضرت شیخ ابوسعید گنگوہی سے ملاقات کا ذکر بھی ملتا ہے۔

۳-اِقتباس الانوار
یہ ’’سیر الاقطاب‘‘ کے تقریباً ایک سو سال بعد کی تالیف ہے۔ مؤلف شیخ محمد اکرم براسوی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی اولاد سے تھے۔ والد کا نام شیخ محمد علی اور دادا شیخ اللہ بخش (خلیفہ حضرت میاں میر قادری لاہوری) تھے۔ کرنال کے مضافاتی علاقے براس میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے براسوی کہلائے۔ قیاس ہے کہ پہلے حضرت میاں میرلاہوری کی صحبت سے فیض یاب ہوئے ہوں گے۔ سلسلۂ عالیہ چشتیہ صابریہ میں حضرت نظام الدین تھانیسری کے خلیفہ شیخ لقمان سے بھی بیعت کی۔ بعدازاں اپنے والد کے شیخ طریقت حضرت شیخ سوندھا کے مرید ہوئے، اور خلافت پائی۔
’’اقتباس الانوار‘‘ مشایخ چشتیہ صابریہ کا مفصل تذکرہ ہے، جس میں شیخ محمد دائود گنگوہی، شیخ محمد علی (والد مؤلف)، اور حضرت سوندھا سفیدونی خلیفہ شیخ دائود گنگوہی تک کے حالات درج ہیں۔ اِجمالاً حضرت دائود گنگوہی کے دیگر خلفا یعنی حضرت شاہ ابوالمعالی انبیٹھوی، شیخ بلاقی کیتھلی، حضرت سیّد غریب اللہ اور شیخ عبدالقادر سنوری کا ذکر بھی موجود ہے۔ اصل کتاب فارسی میں ہے، اس کا اردو ترجمہ کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری نے کیا ہے، جو الفیصل ناشران وتاجران، لاہور سے مطبوع ہے۔ مؤلف نے اپنی خلافت ملنے کا سال ۱۱۱۱ھ/ ۱۷۰۰ء لکھا ہے، یعنی وہ اس کے بعد کچھ عرصہ ضرور حیات رہے، اسی سے اُن کے عہد اور زمانۂ تالیف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، چوںکہ مؤلف کا سنہ وصال معلوم نہیں۔
(تذکرۂ علماو مشایخ پاکستان وہند: محمد اقبال مجددی، جلد اول، ص ۴۱۹)
مترجم کتاب پر سنہ تالیف ۱۱۳۰ھ لکھا ہے، جب کہ محمد اقبال مجددی صاحب نے بعداز تحقیق تکمیل تالیف کا سال ۱۱۳۲ھ لکھا ہے۔

۴- حدائق دائودی
یہ غلام عبدالقدوس بن محمد یوسف کی تالیف ہے۔ مؤلف شیخ دائود گنگوہی کے دخترزادہ تھے۔ یہ کتاب ’’اقتباس الانوار‘‘ اور ’’مرآۃ الاسرار‘‘ کی قریب العہد تصنیف ہے۔ اس میں شیخ نظام الدین تھانیسری، شیخ ابوسعید گنگوہی، شیخ محمد صادق گنگوہی اور شیخ دائود گنگوہی، شیخ محمد برادر شیخ دائود گنگوہی کے حالات موجود ہیں۔ یہ کتاب کبھی باقاعدہ طبع نہ ہو سکی، اس کے قلمی نسخے چند جگہ موجود تھے ۔ اس کتاب سے اقتباسات جناب محمد اقبال مجددی صاحب نے نقل کیے ہیں، اور مولانا اعجاز الحق قدوسی صاحب کی کتاب میں بھی اقتباس ملتے ہیں۔ اقبال مجددی صاحب نے اس کتاب کی اہمیت اور مندرجات پر مفصل روشنی ڈالی ہے، جو ان کی کتاب ’’تذکرۂ علماو مشایخ پاکستان و ہند‘‘ (جلد اول، ص ۳۹۴-۳۷۰) میں شامل ہے۔
’’حدائق دائودی‘‘ شاید اب تک مطبوعہ مآخذ میں اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ اس کا سنہ تالیف معلوم نہیں، البتہ اقبال مجددی صاحب نے قرائن سے ۱۱۵۰ھ طے کیا ہے۔

۵-خزینۃ الاصفیا
مفتی غلام سرور لاہوری (متوفی ۱۳۰۷ھ/ ۱۸۹۰ء)کی یہ کتاب کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کا سنہ تالیف ۱۲۸۰ھ ہے۔
ہندوستان کے مشایخ سے متعلق تذکروں میں ’’خزینۃ الاصفیا‘‘ کو جو مقبولیت حاصل ہے وہ کسی اور کو کم ہی ہوئی۔ بہت سے صوفیہ ایسے ہیں جن کا تذکرہ مفتی صاحب کی کتب میں پہلی دفعہ آیا، اور بعد کے تذکرہ نگاروں نے مفتی صاحب کی کتب سے ہی استفادہ کیا۔ اسی سلسلے میں مفتی صاحب کی ایک کتاب ’’حدیقۃ الاولیا‘‘ بھی ہے جو سلسلۂ صابریہ کے لاہوری مشایخ (حضرت نظام الدین تھانیسری کے خلفا) سے متعلق اوّلین ماخذ ہے۔ ’’خزینۃ الاصفیا‘‘ ۱۲۸۱ھ میں مکمل ہوئی۔ اصل کتاب فارسی میں ہے، اردو ترجمہ مع حواشی محمد اقبال مجددی بھی شائع ہو چکا ہے۔
مفتی صاحب علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، حکمرانوں سے تعلق نہ رکھتے تھے، سرسید سے بھی ملاقات ہوئی۔ مؤرخ لاہور کنہیالال آپ کے تلامذہ میں سے تھا۔ مؤلف خود سہروردی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔

۶- انوارالعافین
یہ کتاب محمد حسین مرادآبادی کی ہے اور فارسی میں ہے۔ اس کا سنہ تالیف ۱۲۹۰ھ ہے۔ تاحال اس کا ترجمہ نہیں ہوا، چاروں معروف سلاسل کے بزرگوں کا ذکر ہے۔ مؤلف چوںکہ خود سلسلۂ عالیہ صابریہ سے تعلق رکھتے تھے اس لیے سلسلۂ عالیہ صابریہ کے بزرگوں کا ذکر خصوصاً موجود ہے، اور بعض متاخرین اولیا و مشایخ سلسلہ پر یہ کتاب واحد ماخذ ہے۔
’’انوار العارفین‘‘ کے مؤلف کا تعارف صحیح طور پر نہ ہو سکا، کہ اسی دور میں ان کے ہم نام دو سے تین بزرگ سلسلۂ عالیہ صابریہ کے ہوئے ہیں۔ مؤلف کا سلسلۂ بیعت تو واضح ہے، تاہم اس کے علاوہ حالاتِ زندگی معلوم نہ ہوسکے۔ بہ ہر حال اہم تذکرہ ہے، اور بعد کے تذکرہ نگاروں مثلاً صاحب ’’گلزارِ ابرار‘‘ وغیرہ اور محمد اقبال مجددی صاحب نے اس کو ضرورتاً نقل کیا ہے۔

۷- حقیقت گلزارِ صابری
سلسلۂ عالیہ صابریہ میں اولیا کے باطنی مکتوبات کا مجموعہ ہے، جو بہ قول جامع حضرت شاہ محمد حسن صابری رام پوری پہلی دفعہ منظر عام پر آئے۔ سنہ تالیف ۱۳۰۴ھ / ۱۸۵۶ء ہے۔ کتاب کے مصادر باطنی اور کشفی ہونے کی وجہ سے اہل تحقیق کے ہاں تو بہت وقعت نہ پاسکی، لیکن اہل ذوق کے ہاں اس کتاب کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت شاہ محمد حسن چشتی صابری ایک عالم دین بھی تھے، اور اُن کو دہلی میں قیام کے دوران حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے شرفِ تلمذ رہا تھا۔ آپ کا سلسلہ پاکستان وہندوستان میں بہت پھیلا۔
’’تواریخ آئینۂ تصوف‘‘ آپ کی مشہور تصنیف ہے، جس میں دو صد سے زائد سلاسلِ طریقت کا تذکرہ اور ان سے مصنف کو حاصل ہونے والی اجازات کی تفصیل موجود ہے۔ یہ کتاب … سال کی ریاضت اور عرب و عجم کی سیاحت کے بعد وجود میں آئی۔

۸-تحفۃ الابرار
از: مرزا آفتاب بیگ چشتی دہلوی
اردو زبان کے تذکرہ مشایخ میں یہ بھی ایک حسین گل دستہ ہے۔ مؤلف نے تمام سلاسل کے بزرگوں کے حالات لکھے ہیں، جس میں ایک ضخیم جلد حالاتِ مشایخ چشتیہ پر مشتمل ہے۔ ۱۳۲۳ھ میں تالیف ہوئی، پہلی مرتبہ ۱۳۲۵ھ میں مطبع رضوی دہلی سے طبع ہوئی، بعدازاں پاکستان میں ترتیب نو کے ساتھ مکتبہ نبویہ لاہور سے شائع ہوئی۔ بہ قول مؤلف انھوں نے یہ تذکرہ ۲۰۰ مختلف کتب کی مدد سے جمع کیا ہے۔ کتاب کا اسلوب تاریخ وصال اور جائے مزار کے حوالے سے جدا ہے، ہر بزرگ کے تذکرہ کی ابتدا میں ہی یہ معلومات اور حوالہ کتب دیا گیا ہے۔ چند بزرگوں کی جاے مزار ہمیں صرف اس کتاب سے معلوم ہوئی۔ مؤلف حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی a کے مرید تھے۔ اس سے نسبت اور زمانہ دونوں واضح ہو جاتے ہیں۔

۹-انوار العاشقین
اپنے مقام پر تفصیلی تعارف اور بعض اوصاف کا تذکرہ پڑھیں!

۱۰-تذکرۃ العارفین فی حیاۃ مظہریہ
یہ تذکرہ ۱۳۴۶ھ میں میرٹھ شہر سے طبع ہوا۔ مؤلف حضرت شاہ غلام حسین حیدرآبادی نے اس تذکرہ میں نبی کریمﷺ سے لے کر حضرت شاہ خاموش حیدرآبادی، اُن کے خلفا اور سجادگان تک کا ذکر شامل کیا ہے۔ اس تذکرہ کا مقصود و موجب حضرت سیّد مظہر علی شاہ صابری خلیفہ حضرت شاہ خاموش حیدرآبادی کا تذکرہ ہے۔ سلسلہ صابریہ کی اس شاخ سے متعلق یہ واحد مآخذ ہے۔ بعد کے لوگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ حضرت شاہ غلام حسین کا اسلوب نہایت عمدہ ہے اور بامقصد ہے۔ اسی لیے مختصر ہے اور بے جا کرامتوں کے بیان سے پاک بھی۔ یہ کتاب اردو میں تحریر کی گئی تھی۔ پاکستان میں اس کی اشاعت آنے والے چند سالوں میں متوقع ہے۔

۱۱-تاریخ مشایخ چشت
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (مؤلف) اپنی کتابوں ’’تبلیغی نصاب‘‘ اور ’’فضائل اعمال‘‘ کی وجہ سے معروف ہیں۔ بلند پایہ عالم دین ہوئے۔ مظاہرالعلوم سے تعلق رہا۔ سلسلۂ صابریہ کی جو شاخ حضرت حاجی امداداللہ تھانوی مہاجر مکی سے علماے دیوبند تک پہنچتی ہے‘ سے وابستہ تھے۔ آپ نے نبی کریم ﷺ سے لے کر اپنے شیخ مولانا خلیل احمد انبیٹھوی ثم مہاجر مدنی تک ۴۲ مشایخ کے حالات جمع کیے گئے ہیں۔ یہ تذکرہ ۱۳۴۹ھ میں مکمل ہوا، اور پاک وہند سے اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

۱۲-شمیم ولایت
یہ مشایخ تصوف کا تذکرہ ہے، جو مولانا ابومظہر علی اصغر چشتی صابری (متوفی ۱۴۳۱ھ/ ۲۰۱۰ء) کا تالیف کردہ ہے۔ اس کا سنہ تالیف ۱۴۱۴ھ /۱۹۹۳ء اور مقامِ اشاعت لاہور ہے۔ اس میں سلسلۂ عالیہ صابریہ کے مشایخ کا تفصیل سے ذکر ہے، خصوصاً حضرت سیّد محمد حسین مراد آبادی اور اُن کے خلفا کے ذکر میں یہ کتاب ایک اہم مآخذ ہے۔ مولانا کا خود اپنا تعلق بھی حضرت صوفی محمد حسین مراد آبادی کے سلسلہ سے تھا، جس کی تفصیل یہ ہے:
علی اصغر صابری، مرید و خلیفہ مولانا عبدالغنی صابری، مرید و خلیفہ حضرت شاہ سراج الحق گورداس پوری، مرید و خلیفہ حضرت صوفی سیّد محمد حسین مرادآبادی

۱۳-صابری ان سائی کلوپی ڈیا
اسی دور کی تالیف ہے۔ مؤلف صاحب زادہ مقصود احمد صابری نے ۳۱۶ مشایخ چشتیہ صابریہ کا تذکرہ مختلف کتابوں اور صوفیہ کی اولاد یا خلفا سے معلوم کر کے جمع کیا ہے۔ سنہ تالیف ۱۴۲۹ھ/ ۲۰۰۸ء ہے۔ راول پنڈی سے طبع ہوئی۔ اس کتاب میں مذکورہ تمام تذکروں سے صابری مشایخ کے حالات جمع کر دیے گئے ہیں۔ حافظ موسیٰ مانک پوری کے خلفا اور مولانا اسماعیل ذبیح گنگوہی کے خلفا کا ذکر اس کتاب کی اہمیت بڑھا دیتا ہے۔

بالعموم یہ اجتماعی تذکرے تھے، اب یہاں بعض ان ملفوظات، مکتوبات یا سوانح کا ذکر کیا جاتا ہے، جو معروف یا نہایت اہم ہیں۔ ذیل میں ان کی تفصیل دیکھیے:

۱-انوار العیون
یہ حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی کے ملفوظات ہیں، جو حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے تحریر فرمائے۔ سلسلۂ عالیہ صابریہ میں ان ملفوظات کو اوّلین حیثیت حاصل ہے۔ ’’انوارالعیون‘‘ حضرت ردولوی کے وصال کے پچاس سال بعد ۸۸۷ھ میں تالیف ہوئی۔ کتاب کا ترجمہ ’’دُرِ مکنون‘‘ کے نام سے اردو میں شائع ہو چکا ہے۔ پاکستان میں یہ ترجمہ جناب زبیر احمد گلزاری نے طبع کروایا تھا۔

۲-لطائف قدوسی
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے ملفوظات اُن کے صاحب زادہ اور خلیفہ حضرت شیخ رکن الدین نے جمع اور تحریر فرمائے۔ سلسلۂ صابریہ میں یہ پہلے ملفوظات تھے جو باقاعدہ کتابی شکل میں آج تک موجود ہیں۔ ان ملفوظات کی اہمیت مسلمہ ہے۔ پاکستان میں اس کا ترجمہ از احسان احمد صابری‘ سیرت فائونڈیشن (۲۰۱۵ء) اور ادارہ پیغام القرآن- لاہور نے شائع کیا ہے۔

۳-مکتوباتِ قدوسیہ
حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے مکتوبات ہیں، جو سلاطین زمانہ اور مریدین کی اِصلاح و تربیت کے لیے لکھے گئے۔ بے نظیر و بے مثال ہیں۔ پاکستان میں یہ مکتوبات کپتان واحد بخش سیال کے اردو ترجمہ کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کی تعلیمات اور فکران مکتوبات سے واضح ہے۔

۴-ملفوظاتِ شریفی
یہ مولانا شاہ محمد شریف نیاولی کے ملفوظات ہیں، جو آپ کے خلیفہ مولانا محمد عاقل نے جمع کیے۔ حضرت شاہ محمد شریف حضرت شیخ ابراہیم رام پوری کے خلیفہ تھے، اور حضرت ابراہیم رام پوری حضرت شیخ ابوسعیدگنگوہی کے خلیفہ تھے۔ ’’انوار العاشقین‘‘ میں ان ملفوظات کے مخطوط سے بعض روایات منقول ہیں۔

۵-عقداللآلی فی مناقب ابوالمعالی
حضرت شیخ دائود گنگوہی کے خلیفہ حضرت شاہ ابوالمعالی انبیٹھوی کا مختصر مگر اہم تذکرہ ہے، جو مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی نے فارسی میں تحریر کیا تھا۔ حیدرآباد دکن سے پہلی دفعہ طبع ہوا۔ تاحال اس کا اُردو ترجمہ نہیں ہوا۔

۶-ثمرۃ الفواد
حضرت سید محمد سعید المعروف حضرت میراں بھیکھ اور اُن کے شیخ کے حالات کا مجموعہ ہے، جس کو مولانا لطف اللہ خلیفہ حضرت سیّد میراں شاہ بھیکھ a نے تحریر فرمایا تھا۔ ۱۹۲۸ء میں اس کا اُردو ترجمہ سلسلہ کے ایک بزرگ حضرت شاہ جمال نے کروایا تھا۔ اس ترجمہ پر مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی کی تصدیق موجود ہے۔ یہ ترجمہ عن قریب لاہور سے شائع ہونے والا ہے۔

۷-نزہۃ السالکین
حضرت میراں بھیکھ کا تذکرہ اور حالات ہیں، جو مولانا سیدعلیم اللہ فاضل جالندھری نے تحریر فرمائے۔ مولانا علیم اللہ جالندھری حضرت میراں جی بھیکھ کے خلفا میں سے تھے۔ تاحال اس کا اردو ترجمہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

۸-تذکرہ حضرت سیّد میراں بھیک
صوفی یونس صابری (متوفی ۲۰۱۸ء) نے حضرت میراں جی بھیک اور بعد میں تمام اولیاے شجرہ کا تذکرہ (اپنے شیخ تک) لکھا ہے۔ اس کا سنہ تالیف ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء ہے، اوریہ ندوۃ الاصفیا، ملتان کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ رسالہ مختصر، لیکن تحقیق و معارف سے پُر ہے۔ میراں جی کی سی حرفیاں بھی صوفی صاحب نے طبع کروائی تھیں۔

۹-تذکرہ حافظ علی حسین خان مراد آبادی
تالیف: عبدالستار عرف گوہر میاں
یہ تذکرہ ۱۴۱۰ھ / ۱۹۹۰ء میں تالیف کیا گیا۔ حافظ علی حسین خان صاحب کے خلفا سے سلسلۂ صابریہ کی بہت سی شاخیں پھیلیں، مزید یہ کہ صوفی محمد حسین مراد آبادی اور صوفی احمد حسن مراد آبادی المعروف گھیرے والے میاں صاحب آپ کے خلفا میں سے تھے۔ ان دو حضرات کے بہت خلفا سے سلسلہ جاری ہوا، جو پاکستان ہندوستان میں تاحال فروزاں ہے۔ پاکستان میں یہ تذکرہ ادارہ فروغِ تجلیاتِ صابریہ، اٹک سے ۱۴۲۶ھ/ ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔

۱۰-انوارِ سراجیہ
حضرت شاہ سراج الحق گورداس پوری (متوفی ۱۹۲۶ء) اور اُن کے خلفا کا تذکرہ (۲جلد) ہے، جسے مولانا محمد حنیف چشتی نے مرتب فرمایا ہے۔ ۱۴۳۵ھ/۲۰۱۴ء میں طبع ہوا۔ سلسلۂ عالیہ صابریہ کی اس شاخ سے متعلق یہ تذکرہ بے نظیر اور واحد ماخذ تصور کیا جاسکتا ہے۔ فتنۂ قادیانیت کے ارتداد میں خانقاہِ سراجیہ اور اس کے خلفا کی خدمات اس میں درج ہیں۔ پاکستان میں ۲۰ سے زیادہ خانقاہیں سلسلۂ صابریہ سراجیہ سے وابستہ ہیں، جن کا موجودہ مرکز فیصل آباد ہے۔

۱۱-حاجی امداداللہ مہاجر مکی اور ان کے خلفا
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (۱۸۱۴-۱۸۹۶ء) شیخ العرب و العجم ہوئے۔ آپ کے خلفا بہت سے ممالک میں ہوئے۔ ڈاکٹر حافظ قاری فیوض الرحمن نے آپ کے خلفا کا تذکرہ جمع کیا ہے۔ صابری نسبت کی وجہ سے ہم اس کتاب کو بھی صابری تذکروں میں شامل کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا کتب کے علاوہ بھی سلسلۂ صابریہ کے مشایخ کے متعدد تذکرے طبع ہوئے، یہاں کسی اہم تذکرہ کا ذکر نہ ہونا میری کم علمی کے باعث ہو سکتا ہے۔

انوار العاشقین
تذکرہ ہاے مشایخ چشتیہ صابریہ کا ایک اہم حوالہ

’’انوار العاشقین‘‘ کے مؤلف مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی ایک عالم دین اور درویش ہوئے ہیں۔ سہارن پور کے قصبہ انبیٹھہ سے تعلق تھا۔ مدرسہ مظاہر العلوم، سہارن پور سے تحصیل علم فرمائی، بعدازاں تلاشِ حق میں سرگرداں ہوئے، اور علماے ربانیین اور فقرا کی جانب رجوع کیا۔ نقلی علوم کے ساتھ علم لدنی کے حامل اولیاء اللہ کی صحبت اختیار کی۔ بعداز فراغت لدھیانہ کے ایک مدرسہ میں تدریس شروع کی۔ آپ کی تصانیف کثرت سے ہیں۔ ابتدائی دور میں شرعی عنوانات اور مسائل پر رسائل و کتب تحریر فرمائیں، بعدازاں فقرا کی صحبت کے باعث زندگی کے آخری حصہ میں صوفیانہ رنگ غالب رہا۔

بہت سے اہل قلم اور تذکرہ نگاروں نے مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی چشتی صابری کو مسلک کے واضح نہ ہونے پر نقل نہیں کیا، لیکن ان کے ذوق اور فکر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ جہاں رام پور کے صابری درویشوں کے دست گرفتہ ہوئے تو دوسری جانب انبالہ کے امّی درویش حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی a کی صحبت سے بھی فیض یاب ہوئے۔ آپ کے مسلک اور میلان کے متعلق جاننے کے لیے یہ امر کافی ہے کہ آپ اور شیخ الاسلام مولانا انواراللہ خان حیدرآبادی (خلیفہ حضرت امداداللہ مہاجر مکی/ بانی جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن) کے درمیان محبت اور عقیدت کا گہرا تعلق تھا۔ مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی نے ’’انوارالعاشقین‘‘ حضرت مولانا کی تحریک پر ہی تالیف فرمائی تھی، جو آج مشایخ چشتیہ صابریہ کے تذکروں میں ایک اہم اور قابل ذکر کتاب ہے۔

دوسری اہم بات علامہ نور بخش توکلی کا مولانا انبیٹھوی کا شاگرد اور سلسلۂ عالیہ چشتیہ صابریہ میں مرید ہونا ہے۔ ہمارے یہاں پاکستان میں علامہ نور بخش توکلی اپنی کتاب ’’سیرتِ رسولِ عربی‘‘ کے باعث معروف ہیں، اور آپ کی یہ تصنیف مقبولِ عام اور داخل نصابِ درس ہے۔ علامہ نور بخش توکلی نے ’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ کی جو شرح اُردو میں کی ہے اُس میں بھی واضح طور پر یہ ذکر کیا ہے کہ اس کی اجازت اور پڑھنے کا طریقہ اُن کو اپنے مرشد مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی سے ملاتھا۔

مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی کے آثار میں علامہ نور بخش توکلی کا ذکر اور تذکرہ ’’انوارالعاشقین‘‘ نہایت اہم ہیں، جو آپ کے مزاج اور ذوق کی واضح خبر دیتی ہے۔ سلیم الطبع حضرات کے لیے اتنی وضاحت کافی ہے۔ اس وضاحت کا مقصد مولانا انبیٹھوی کو معتبر قرار دینا نہیں، بل کہ غلط فہمیاں دور کرنا، اور فاصلے مٹانا ہے، ورنہ جو لوگ اس دنیا سے جا چکے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، اور وہی اُن کے بارے خوب جانتا ہے۔
’’انوار العاشقین‘‘ اردو زبان میں مشایخ چشتیہ صابریہ کے اولین تذکروں میں سے ہے، بعد میں آنے والے تذکرہ نگاروں نے ’’انوارالعاشقین‘‘ کے حوالہ جات نقل کیے ہیں۔ آپ کی قبر انبیٹھہ کے قبرستان میں ہے۔ آپ نے حضرت شاہ ابوالمعالی انبیٹھوی کا ایک مختصر تذکرہ بھی تحریر فرمایا تھا جو کہ فارسی میں تھا اور حیدرآباد دکن سے طبع ہوا تھا۔ ضرورت ہے کہ اس کا ترجمہ ہو کر شائع ہو تاکہ صاحبان ذوق اور طالبانِ علم دونوں استفادہ کر سکیں۔ ’’تذکرہ علماے حال‘‘ میں مولانا ادریس نگرامی نے آپ کا ذکر کیا ہے۔

اس کتاب کا سنہ طباعت ۱۳۳۲ھ ہے جو کہ اس کی تالیف کا سال بھی ہے۔ مولانا نے سلسلۂ عالیہ چشتیہ صابریہ کی اکثر خانقاہوں اور مشایخ کا ذکر اس میں کیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتاب کسی ایک خانقاہ کی نمائندگی نہیں کرتی، بل کہ سلسلۂ صابریہ کی نمائندہ ہے۔
’’انوار العاشقین‘‘ میں مشایخ چشتیہ صابریہ کے تذکرے تو ہیں، لیکن جس صراحت سے حضرت شیخ محمد گنگوہی a اور اُن کے خلفا کا ذکر ہے وہ اس کا خاصہ ہے۔ حضور صابر پاک کی درگاہ کی سجادگی پچھلی کئی پشتوں سے حضرت گنگوہی کی اولاد ہی کے پاس ہے۔
مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی بھی سلسلۂ عالیہ چشتیہ صابریہ میں شیخ محمد گنگوہی کے ذریعہ ہی حضرت قطب العالم عبدالقدوس گنگوہی سے وابستہ ہیں۔ آپ نے اس تذکرہ میں تمام معاصرین اور اپنے شیخ طریقت حافظ محمد صابرعلی رام پوری تک کے حالات ذکر کیے ہیں۔ مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی کے پیش نظر اکثر وبیش تر تمام پہلی کتب رہیں، جن میں ’’حدائق دائودی‘‘ جیسا اہم اور نایاب تذکرہ بھی شامل ہے۔ بہت سے مشایخ یا اُن کے سجادگان سے مولانا کے تعلقات یا ملاقاتیں بھی رہی تھیں۔

بعض اوصاف:
’’انوار العاشقین‘‘ کی خوبی مؤلف کا ذوق اور سلسلۂ عالیہ صابریہ سے قوی نسبت ہے اور پھر یہ کہ وہ عالم دین ہونے کی بنا پر قصے کہانیوں سے پرہیز کرتے ہیں، اور صرف مستند اور معتبر واقعات ہی نقل کرتے ہیں۔ کتاب لکھنے کی ضرورت اور غرض وغایت مشایخ چشتیہ صابریہ کی تاریخ کو محفوظ کرنا اور محبت و ذوق پیدا کرنا ہے، جیسا کہ کتاب کے اختتام میں مؤلف نے خود بھی فرمایا ہے۔

مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی نے محض مشایخ کا تذکرہ نقل کرنے کو ہی کافی نہیں سمجھا، بلکہ جہاں تک ممکن ہوا اُن کے خلفا و سجادگان کا ترتیب وار اجمالاً ذکر بھی کیا ہے، وقتِ تالیف تک موجود خانقاہ کے وارثان یا جانشینان کا ذکر بھی کیا ہے۔ یعنی اس کتاب کے مآخذ فقط کتب سیر وملفوظات ہی نہیں‘ ذاتی تعلقات اور مشاہدات بھی ہیں، جو اس کو بہ ذات خود ایک قابل حوالہ ماخذ کا درجہ دے دیتے ہیں۔

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔