تذکرہ حضرت میاں عطاء اللہ ساگر وارثی
از سید عثمان وجاہت صابری(راولپنڈی۔پاکستان)
میاں غلام فرید وارثی مقیم سمن آباد لاہور ایک شاداب شخصیت ہیں ۔ بناوٹ سے دور ، اخلاص و محبت کے خمیر میں گندھے اس با کمال انسان سے مجھے بل مشافہ ایک ملاقات کا موقع ملا جب میں ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوا تھا ۔ جب ہی خلیل الرحمن مانک پوری سے بھی واحد ملاقات ہوئی تھی ۔ خلیل صاحب مرحوم ہوے ان کا انتقال 2019 میں ہوا تھا ۔ تو ملاقات اس سے قبل ہی ہوئی ہو گی لیکن ایک سال سے زیادہ کا فرق نہ ہو گا ۔
غلام فرید وارثی ، حضرت کاتب وارث حضرت عطاء اللہ ساگر وارثی (Hazrat Ataullah Sagar Warsi) کے صاحبزادے ہیں ۔ ساگر صاحب مشربا وارثی یعنی چشتی نظامی تھے ، ذوق تصنیف و تالیف کا بھی خوب تھا لیکن کمال بات یہ کہ پیشے کے اعتبار سے بنکار تھے ۔
صاحبزادہ غلام فرید وارثی نے اپنے والد کی یاد میں اور ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کو ایک کتاب تذکرہ عطاء اللہ ساگر وارثی اور تاریخ موضع اروپ ترتیب دی ۔ 2021 فروری میں اس کتاب نے زیور طباعت پہنا اور آ موجود ہوئی ۔ صاحبزادہ غلام فرید وارثی نے اس کتاب کی تقریب رونمائی بہت دلفریب انداز میں کی ۔ پہلا نسخہ لے کر اپنے والد کی تربت پر اروپ پہنچے اور ان کو نذر کی ۔ اس کتاب کو اویس سہروردی صاحب مرحوم نے اورینٹل پبلی کیشن سے شایع کیا تھا ۔ جولائی 2021 میں ایک نقل غلام فرید وارثی صاحب نے مجھے بھی بھیجی ۔۔جس پر میں ممنوں تھا اور ہوں ۔نومبر 2024 میں مطالعہ کیا اور مطالعہ کرنے کے بعد یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب تبصرہ کے لائق ہے ۔ چناچہ اپنی بساط کے مطابق عرض کرتا ہوں ۔
کتاب 574 صفحات پر مشتمل ہے کئی ابواب پر مبنی ہے ۔ ساگر صاحب مرحوم پر کثرت سے معاصر کے تاثرات موجود ہیں ۔ ساگر صاحب کے ابا و اجداد خصوصا والد گرامی بابا رحمت علی شاہ صابری کے تذکرہ سے یہ کتاب مزین ہے ۔ ساگر وارثی مرحوم کی۔ ولادت 1935 میں ہوشیار پور کی ہے ۔ اپنے والد کے مرشد اور شیخ زمانہ سلسلہ صابریہ کی عظیم شخصیت خواجہ محمد دیوان صابری رحمہ اللہ کی زیارت کی ۔ یہ خاندان تقسیم ھند کے بعد اروپ ، ضلع گوجراں والا آیا ۔ یہاں ہی ساگر صاحب کے والد کی تربت بھی ہے ۔
اروپ میں خواجہ محمد دیوان صابری کے نام لیوا حضرات کی بھی کثرت ہے ۔ ساگر صاحب نے اپنے والد اور ان کے مشائخ کی قیام گاہ یعنی ہوشیار پور کی تاریخ مرتب کی اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے میاں غلام فرید وارثی نے اروپ کی تاریخ پر کام کیا ۔ یوں اپنے والد سے متعلقہ ہر زاویہ پر تحقیق کی اور قلم رواں رکھا ۔ ایسا کسی کی بے پناہ محبت ہی سے ہو سکتا ہے ۔ یہی محبت کتاب میں نظر بھی آتی ہے ۔
عطاء اللہ ساگر وارثی (Hazrat Ataullah Sagar Warsi) مرحوم کو بچپن سے ہی صوفی نسبتوں نے گھیر رکھا تھا ۔ والد صابری ، والد کے مرشد خواجہ صاحب جنہوں نے ساگر صاحب کا نام بھی تجویز کیا تھا ۔ ساگر صاحب کے استاد مولانا دولت علی چشتی صابری جو حضرت شاہ سراج الحق گورداسپوری چشتی صابری کے مرید تھے اور مولانا عبد الغنی چشتی صابری کے سگے بھائی تھے ۔
اس کتاب میں مولانا نواب الدین رمداسی کا ذکر نہیں ملا ۔ ساگر صاحب نے ان کی زیارت بھی ضرور کی ہو گی کہ وہ مولانا دولت علی کے پیر بھائی تھے ۔۔دوسوہا ان کا بھی خاصا قیام رہا اور رد قادیانیت کی وجہ سے بہت معروف بھی تھے ۔ خواجہ محمد دیوان کی خانقاہ میں اور ان کے عرس میں ان کا جانا کتب میں مذکور ہے ۔
پھر مزید دلچسپ بات یہ کہ ساگر وارثی مرحوم کے دفتر میں ان کے افسر اور مہربان ریاض الحق قریشی بھی صابری سراجی سلسلہ کے تھے ۔ یہ وہی ریاض الحق صابری ہیں جو مخدوم عبد الحق صابری سراجی کے صاحبزادے اور خلیفہ ہوے ۔ ریاض الحق صاحب نے ہی ساگر صاحب کی نماز جنازہ پڑھائی ۔
دیگر صابری مشائخ اور دوستوں میں صوفی منظور احمد صابری ، الیاس صابری ، امیر بخش امیر صابری اور خلیل الرحمن صابری قادری مانک پوری شامل ہیں ۔ اروپ کے صابری فقرا اس کے علاوہ ہیں ۔
یہ تو تھا صابری صحبتوں اور تعلقات کا ذکر جو ہمیں اس کتاب سے ملتا ہے ۔
جہاں تک جناب کی وارثی نسبت کا تعلق ہے ، ساگر صاحب ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جن کو حضرت بابا حیرت شاہ صاحب کا دامن مراد ملا ۔ حضرت ابر شاہ وارثی ، افقر موہانی وارثی ، عنبر شاہ وارثی ، دیدار شاہ وارثی ، یعقوب شاہ وارثی ، عزت شاہ وارثی ، انوار شاہ وارثی ، مظفر وارثی اور بہت سے مشاہیر وارثی فقرا کو دیکھنے کا موقع ملا ۔ سلسلہ وارثیہ کے آپ کوئی عمومی رکن نہیں بلکہ كاتب وارث کہلاۓ ۔ اس کا سبب سلسلہ وارثیہ پر وہ تصنیفی کام ہے جو صرف ساگر صاحب کا خاصا ہے ۔
کتاب کے ابتدائی صفحات میں صفحہ 46 تک فہرست ، حمد و نعت و مناقب اور اہل علم کے تاثرات ہیں ۔
صفحہ نمبر 47 سے 57 تک ضلع گوجراں والا کی عہد بہ عہد جغرافیائی حدود اور معلومات مع نقشہ جات موجود ہے ۔ صفحہ 58 تا 223 اروپ سے متعلق ہیں ۔ اروپ کی تاریخ، اس میں بسنے والی ذاتیں ، عمارات ، مشاہیر اور آبادی نیز ووٹرز کی تعداد بھی درج ہے ۔
صفحہ 224 تا 264 اروپ کے مشائخ اور اولیا کا تذکرہ ہے ۔ یہاں تک کتاب کا پہلا حصّہ مکمل ہوتا ہے ۔
دوسرا حصّہ میاں عطاء اللہ ساگر وارثی کا تذکرہ ہے جو صفحہ نمبر 437 تک جاری رہتا ہے ۔ اس میں ساگر صاحب کے حالات زندگی ، معمولات ، ملازمت اور تصنیفی و صوفیانہ پہلو تفصیل سے ذکر کیۓ گئے ہیں ۔ ساگر صاحب کے نام خطوط ، ان کی کتابوں پر اہل علم و اہل سلسلہ کی راۓ اس میں شامل ہیں ۔ ساگر صاحب شاعر بھی تھے ۔ ظفر بریلوی صاحب سے تلمذ تھا ۔ شاعری کے چند نمونے بھی اس حصّہ میں شامل ہیں ۔
ساگر صاحب کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتب کا بھی اس میں تعارف موجود ہے ۔
باقی صفحات پر تعلیقات و اشاریہ کے ساتھ ساتھ اہم رنگین تصاویر بھی ہیں ۔ ان تصاویر میں ساگر صاحب کے بچپن سے لے کر آخر تک کی تصاویر ہیں ۔
کتاب کے بیک کوور پر محمد طاہر حسین قادری منگانی شریف ، جھنگ کے تاثرات درج ہیں ۔
اس کتاب کو دیکھ کر بندا سوچ میں کھو جاتا ہے کہ کیا یہ ایک کتاب کا مواد تھا ۔ مرے نزدیک اس کتاب سے کئی کتابیں نکل سکتی ہیں ۔ اروپ اور مشائخ اروپ پر دو رسالہ ، ساگر وارثی اور معاصر مشائخ ، خواجہ محمد دیوان صابری کے سلسلہ کے حالات و آثار وغیرہ اس سے اخذ کیے جا سکتے ہیں ۔
پنجاب کی ذاتیں خصوصا چیمہ اور بھنڈر جو اروپ میں بکثرت آباد ہوئیں اور ہیں سے متعلق جس قدر لکھا گیا ہے وہ قابل دید اور اہم ہے ۔ ان دونوں خاندانوں کی تاریخ لکھ کر غلام فرید وارثی نے اروپ سے اپنے تعلق کا حق خوب ادا کیا ہے ۔
سلسلہ وارثیہ سے چوں کہ مولف اور ان کے والد کا مظبوط تعلق رہا اس لئے یہ کتاب وارثی حلقوں میں بھی ایک تاریخی حوالہ بن گئی ہے ۔
اللہ برادرم غلام فرید وارثی کو اپنے والد سے محبت کا صلہ دے ۔ بلا شبہ انہوں نے ہونے والد کی۔ خدمات پر بہترین خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔
اس تبصرہ کے آخر میں ایک بات یاد آئی کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد صاحب اور ڈاکٹر عبد العزیز ساحر صاحب کے ہاں چند مرتبہ جانا رہا ، ہمیشہ کچھ سیکھنے کا موقع ملا ۔ وہاں بیٹھے ایک صاحب نے جو شاید ڈاکٹر باقر وسیم قاضی تھے کہا کہ اردو ادب پر کام کرنے والے چند اصحاب کا تعلق بنکاری سے بھی ہے اور تحقیق کا یہ بھی ایک حوالہ ہو سکتا ہے ۔ آج ساگر وارثی مرحوم کا تذکرہ پڑھتے ہوے یہ بات دوبارہ یاد آئی ۔ تو اگر کبھی اس زاویے سے واقعی تذکرے ترتیب دیۓ جائیں تو ساگر صاحب بھی ان میں قابل ذکر نظر آئیں گے ۔
اللہ تمام اصحاب کو سلامت رکھے ۔
مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔
بریکنگ
- •چیمپئنز ٹرافی 2025 بھارتی ٹیم پاکستان کےنام والی جرسی پہنے گی.
- •سپریم کورٹ میں ‘بینچز کے اختیار،اس کیس کا 26 ویں آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں.
- •ایلون مسک کا پاکستان مخالف بیانیہ؛ اسٹار لنک کا لائسنس معافی کے بغیر ممکن نہیں
- •بحریہ ٹاؤن سے دبئی تک، ملک ریاض کا عزم اور نیب کے الزامات
- •حکومت مخالف فیصلے کے خدشے پر مقدمات واپس لینے کا انکشاف