حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری ؒ احوال و آثار

Syed Usman Wajahat
از سید عثمان وجاہت صابری(راولپنڈی۔پاکستان)

تھانیسر، کرنال سے تئیس میل شمال کو سرستی ندی کے کنارے ایک ہموار اور زرخیز علاقہ ہے۔ ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح اس علاقے نے بھی مختلف ادوار دیکھے۔ بہت بادشاہ و سلاطین یہاں سے ہو کر گزرے یا ٹھہرے۔ مسلمانی بادشاہت کے وقت بھی یہاں بڑے بڑے علماء، صلحاء و مشائخ ہو گزرے جن کے عالی شان مقبرے بھی تعمیر ہوئے۔ ان میں سے دو معروف ہیں ایک شیخ چہلی رحمۃ اللہ اور دوسرے حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری چشتی صابری رحمۃ اللہ (Hazrat Sheikh Jalaluddin Thanisari Chishti Sabri RA ) ہیں ۔ تاریخ مشائخ صوفیہ خصوصاً چشتیہ میں تھانیسر کا نام حضرت شیخ جلال الدین ہی کی معرفت زیادہ معروف ہے۔

حضرت شیخ جلال الدین فاروقی النسب تھے، تھانسیر میں ولادت ہوئی اور والد کا نام محمود تھا۔ سات برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور سترہ برس کی عمر میں علوم دینیہ کی تحصیل مکمل فرمائی اور فتویٰ نویسی کرنے لگے۔

حضرت عبدالقدوس گنگوہیؒ اپنے مریدین کے یہاں تھانیسر آیا کرتے تھے۔ اس دور میں حضرت شیخ جلال الدین بڑے علماء اور مدرسین میں شمار ہوتے تھے۔ مدرسے میں باقاعدہ تدریس فرماتے، مختلف علوم کی کتب پر مشکل کُشا حاشیے لکھے۔ الغرض آپ کی دینی اور علمی حیثیت مسلمہ تھی اور آپ نہایت باشرع تھے۔ حضرت عبدالقدوس گنگوہی سے ملاقات اور اس کے احوال خوبصورت ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ آپ تقدیر الٰہی میں ہی چنیدہ تھے اور آپ کو فیضانِ قدوسیہ سے فیض یاب ہونا تھا۔ بعد از بیعت خوب ریاضت و مجاہدہ کیا، اپنے شیخ سے خط و کتابت بھی کی۔ دن کو روزہ رکھا اور رات کو نوافل میں گزارا۔ کچھ تذکرہ نگاروں نے روزانہ ایک قرآن مجید کی تلاوت کے بارے میں لکھا ہے لیکن غوثی مانڈوی نے گلزار ابرار میں آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ حفاظ کے ساتھ روزانہ دو قرآن مجید کے دور کرتے۔ غوثی مانڈوی آپ کے زمانہ کے قریب ترین تذکرہ نگاروں میں ہیں انہوں نے آپ کو جامع شریعت اور صاحب استقامت لکھا ہے۔ جماعت کے ساتھ نماز کی پابندی تا وقت آخر قائم رہی۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (متوفی 1056ھ)نے بھی آپ کی استقامت اور ثابت قدمی کی تعریف کی ہے۔ شیخ اللہ دیا چشتی نے سیر الاقطاب (سن تالیف 1056ھ) میں آپ کو حجت اولیاء لکھا ہے۔

غوثی مانڈوی نے آپ کے صاحبزادے عبدالبصیر کا نام بھی لکھا ہے کہ وہ بعد از وصال سجادہ نشین ہوئے نیز حضرت کے عقیدت مندوں میں افضل حضرت بہاؤالدین سرہندیؒ تھے۔ یہ دو نام دیگر تذکروں میں نہیں ملتے۔

آپ کی دو تصانیف یادگار ہیں۔ پہلی ارشاد الطالبین ہے جو تصوف سے متعلق ہے خصوصاً ذکر سے متعلق تعلیم پر مشتمل ہے۔ اس کا موجود فارسی نسخہ مکتبہ آصفیہ علوم اسلامیہ،مطبع مجددی امرتسر سے طبع ہوا تھا۔ جس کا اہتمام بحکم حضرت خواجہ سید محمد حسین مراد آبادی جناب صوفی نور احمد صاحب پسروری صدر انجمن نعمانیہ امرتسر انڈیا نے کیا تھا۔ اس پر حضرت شاہ غلام حسین چشتی حیدرآبادی خلیفہ حضرت محمد شاہ ہاشم حسینی حیدر آبادی خاموشیؒ کی تقریظ موجود ہے۔ اس کا ترجمہ پاکستان میں ندوۃ الاصفیاء، ملتان میں طبع ہوا۔ صوفی یونس صابریؒ نے ترجمہ کر کے طبع کروایا۔

دوسری کتاب آپ کی تحقیق اراضی ہند ہے جو تاریخ، تصوف، علوم شریعہ اور جغرافیہ کے طالب علموں کے لئے بھی اہم ہے۔ مشائخ چشتیہ کی علمی قابلیت اور خدمات کی آئینہ دار ہے۔ درویش اپنے زمانہ کے مسائل سے ہرگزلا تعلق رہ کر اپنی خانقاہ کا نہیں ہورہتا بلکہ مسائل و مشکلاتِ زمانہ کا حل تجویز کرتا ہے۔ تحقیق اراضی ہند اس ضمن میں چشتی صوفیاء کی علمی اور عملی خدمات کی ایک عمدہ مثال ہے۔تحقیق اراضی ہند میں ان اراضیوں کی ملکیت پر بحث کی گئی ہے جو بادشاہ کی طرف سے لوگوں کو بطور ملک دی گئیں تھیں۔ اس زمانہ کے علماء میں سے کچھ کا فتویٰ تھا کہ ان لوگوں کو اُن اراضی کی ملکیت کا حق حاصل نہیں چنانچہ وہ ان کو بیع بھی نہیں کر سکتے۔ اس رسالے کو الگ سے شائع ہونے کی ضرورت ہے۔ہندوستان میں یہ تقسیم سے قبل طبع ہوئی تھی۔ طابع کی معلومات نہیں۔ پاکستان میں بصائر (شمارہ اپریل 1963 ء)میں ڈاکٹر معین الحق نے اس کو متن کے ساتھ طبع کیا اور اس کا ترجمہ مولوی سید سعید اشرف ندوی حسنی صاحب سے کروایا تھا۔

قطب العالم حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ اور آپ کے تعلق میں حضرت کا یہ قول خوب ہے کہ اگر خدا نے پوچھا کہ کیا لائے ہو تو جلال الدین اور رکن الدین کو پیش کر دوں گا۔ حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری چشتی صابری رحمۃ اللہ (Hazrat Sheikh Jalaluddin Thanisari Chishti Sabri RA ) یوں تو سلسلہ عالیہ صابریہ میں ایک عظیم بزرگ ہیں ہی لیکن خاندان قدوسی کے لئے ایک اور حوالے سے بھی اہم ہیں کہ حضرت جلال الدین تھانیسری کی صاحبزادی حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی کی والدہ تھیں یوں حضرت جلال الدین تھانیسری حضرت شیخ ابو سعید کے نانا جان بھی تھے اور بااعتبار سلسلہ دادا پیر بھی۔

حضرت جلال الدین تھانیسری کے اولو العزم خلیفہ و جانشین ان کے بھتیجے اور داماد حضرت نظام الدین تھانیسری ثمہ بلخی ہوئے جن کے خلفاء عرب و عجم میں پھیلے۔

اکبر بادشاہ سے آپ کی ملاقات اور سوالات کتابوں میں موجود ہیں جو حیرت کی بات نہیں کہ اہل دنیا، فقیروں کے در پر سوالی ہی ہوتے ہیں۔

آپ کے ہم زمانہ مشائخ میں حضرت شاہ کمال کیتھلیؒ معروف ہیں جو حضرت غوث اعظم کی اولاد تھے، دوبار باہم ملاقات تذکروں میں مرقوم ہے۔

حضرت جلال الدین تھانیسری کا وصال 989ھ میں بعمر 95 برس ہوا۔ تھانیسر میں روضہ آج بھی فیض رساں ہے۔ ہر سال عرس کی تقریب مزار مبارک پر منعقد ہوتی ہے۔

بحق آں جلال الدین محمودؒ
خدایا خاتمہ ما ساز محمود

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔