سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ (Justice Mansoor Ali Shah) نے استعفے سے متعلق قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھاگنے والے نہیں ہیں، بلکہ اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دیتے رہیں گے۔ یہ بات انہوں نے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں "جسٹس فار چِلڈرن” کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں کہی، جو یونیسف اور دیگر اداروں کے تعاون سے منعقد کی گئی تھی۔
آئینی بینچ سے علیحدگی کی وضاحت
جسٹس منصور علی شاہ (Justice Mansoor Ali Shah) نے تقریب کے دوران کئی مرتبہ اس بات کا ذکر کیا کہ وہ آئینی بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔ انہوں نے جسٹس جمال مندوخیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 11 (3) کی تشریح ضروری ہے، لیکن وہ اس تشریح کے لیے مجاز نہیں، یہ کام جسٹس جمال انجام دے سکتے ہیں۔
عدالت میں بچوں کو سننے کی ضرورت پر زور
اپنے خطاب میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بچے نہ صرف ہمارا مستقبل ہیں بلکہ ہمارے آج کا بھی اہم حصہ ہیں۔ بدقسمتی سے عدالتوں میں جب بچے پیش ہوتے ہیں تو انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا، لیکن اب ہمیں اس طرز عمل کو تبدیل کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ کو بچوں کے حقوق اور ان کے لیے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔
چائلڈ کورٹ کے قیام کی تجویز
انہوں نے بچوں کے لیے خصوصی عدالتوں (چائلڈ کورٹ) کے قیام کی ضرورت پر زور دیا اور ججز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے لیے انصاف کی فراہمی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ "بچے کل کے لوگ نہیں، بلکہ آج کے اہم شہری ہیں، اور ان کے مسائل کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔”
تعلیمی نظام کی خامیوں پر روشنی
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خطاب میں اس حقیقت کا ذکر کیا کہ پاکستان میں 25 ملین سے زیادہ بچے اسکول سے باہر ہیں، جو ایک قومی المیہ ہے۔ انہوں نے بچوں کو درپیش جدید خطرات جیسے سائبربلنگ اور آن لائن ہراسمنٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان مسائل پر فوری توجہ دی جانی چاہیے۔
عالمی قوانین اور عدالتی نظام
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو بچوں کو عدالتی فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنا چاہیے اور کیسز کے فیصلوں میں تاخیر سے بچنا چاہیے۔ "بچوں کو 15 یا 20 سال تک انتظار کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔”
بچوں کی اہمیت پر زور
تقریب کے اختتام پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا، "بچے ہماری زندگیوں کا سب سے اہم حصہ ہیں، اور ان کی فلاح و بہبود کو ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ ہمیں ان کے لیے ایک محفوظ اور روشن مستقبل کی ضمانت دینا ہوگی۔”