اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کے انسداد دہشت گردی عدالت (Anti-Terrorism Court) کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے انہیں عدالتی ریمانڈ پر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل بینچ نے یہ فیصلہ صحافی کے وکلا کی درخواست پر سنایا۔
مطیع اللہ جان کے وکلا، ایمان مزاری، ہادی علی چٹھہ، اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ریاست علی آزاد، عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ریاست علی آزاد نے اپنے دلائل میں کہا کہ مطیع اللہ جان کے خلاف مقدمہ جھوٹ اور بے بنیاد کہانی پر مبنی ہے۔
ہائی کورٹ کے حکم پر انسداد دہشت گردی عدالت (Anti-Terrorism Court) کا فیصلہ پڑھا گیا، جس کے بعد عدالت نے مطیع اللہ جان کے جسمانی ریمانڈ کو غیر ضروری قرار دے کر انہیں عدالتی ریمانڈ پر رکھنے کا فیصلہ سنایا۔
وکیل ایمان مزاری نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ مطیع اللہ جان کی درخواست ضمانت جلد دائر کی جائے گی۔ انہوں نے اس سے قبل جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مطیع اللہ جان کو جھوٹے اور من گھڑت الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے، جو آزادی صحافت پر حملہ ہے۔
مطیع اللہ جان کے اہلخانہ کے مطابق انہیں بدھ کی رات پمز ہسپتال کی پارکنگ سے ساتھی صحافی ثاقب بشیر کے ساتھ نامعلوم افراد نے اغوا کیا۔ ثاقب بشیر کو کچھ دیر بعد چھوڑ دیا گیا، جبکہ مطیع اللہ جان کو پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا۔
مارگلہ تھانے کی پولیس نے ان کے خلاف پولیس اہلکاروں پر حملے اور منشیات رکھنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ تاہم، انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی)، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے)، اور دیگر صحافتی تنظیموں نے ان الزامات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دے کر ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی مطیع اللہ جان کی گرفتاری کو آزادی صحافت پر براہ راست حملہ قرار دیتے ہوئے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔