سپریم کورٹ میں سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس Civilian Military Trial Case کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کیے۔ دوران سماعت، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ایک اہم سوال اٹھایا: "کیا 9 مئی کا جرم دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟” یہ سوال اس بات کا غماز تھا کہ اس کیس میں مختلف نوعیت کے جرائم کی سنگینی کا موازنہ کیا جا رہا تھا، جس پر عدالت میں اہم بحث شروع ہو گئی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ فوجی عدالتیں مخصوص قانون کے تحت کام کرتی ہیں اور ان کا دائرہ آئین کے تحت عدالتوں سے مختلف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 21 ویں ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کو مخصوص حالات میں قائم کیا گیا تھا، جس میں جنگی صورتحال اور فوجی تنصیبات پر حملے شامل ہیں۔ اس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ "کیا 9 مئی کا جرم ان دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟” انہوں نے جی ایچ کیو اور کامرہ بیس پر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس سوال کو دوبارہ اٹھایا۔
اس کیس کی سماعت میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی میڈیا کی رپورٹس پر وضاحت دی کہ کسی جج کے فیصلے کو غلط کہنا مناسب نہیں ہے، اور اس سے عدالت کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ سماعت کے دوران، خواجہ حارث نے ملٹری ٹرائل کے ریکارڈ کے حوالے سے اپنے دلائل مکمل کیے اور کہا کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے لئے آئین میں کوئی ترمیم کی ضرورت نہیں تھی۔ اس تمام بحث کے بیچ، جسٹس حسن اظہر رضوی نے پھر سے سوال کیا، "کیا 9 مئی کا جرم دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟” جس پر مزید دلائل دیے گئے۔
سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس Civilian Military Trial Case کے حوالے سے اس اہم سوال پر عدالت میں مختلف زاویوں سے بحث جاری ہے، اور آئینی بینچ نے اس پر مزید غور کے بعد سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ اس معاملے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے تمام فریقین کو مزید دلائل دینے کا وقت دیا ہے تاکہ معاملے کی تمام پہلوؤں کو جانچا جا سکے۔