قومی اسمبلی نے متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء PECA Amendment Bill منظور کر لیا، جس پر صحافیوں اور اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ صحافتی تنظیموں نے اس بل کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کو مسترد کرتے ہوئے اسے "کالا قانون” قرار دیا اور اس کے فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
بیرسٹر سیف نے کہا، "جو قبر میڈیا کے لیے کھودی گئی ہے، وہی غیر منتخب حکومت کو خود دفن کر دے گی”، عمر ایوب نے اس بل کو فاشسٹ حکومت کا اقدام قرار دیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ بل صرف سوشل میڈیا کے لیے ہے، اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قانون سے ورکنگ جرنلسٹس کو تحفظ ملے گا۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں کئی بلز پیش کیے گئے۔ ان میں پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء PECA Amendment Bill اور ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 شامل تھے۔ ان دونوں بلز کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
اس بل کے تحت پاکستان میں ایک نیا ڈیجیٹل کمیشن تشکیل دیا جائے گا، جس میں مختلف اہم حکومتی افسران شامل ہوں گے۔ اس کمیشن کا مقصد پاکستان میں ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کو یقینی بنانا ہے۔ پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے تحت سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلانے والوں کو پانچ سال تک کی سزا دی جا سکتی ہے، جس پر صحافیوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا اور ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
قومی اسمبلی نے اس بل کی منظوری کے بعد سوشل میڈیا قوانین کو مزید سخت کر دیا ہے، جسے اپوزیشن اور صحافیوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا